فضل مولا زاہدکالم

دھرتی کا بیٹا

  اپنے سوات پشاورجی ٹی روڈ پر بریکوٹ سے تین چار کلومیٹر آگے لنڈاکی چیک پوسٹ کے سنگم اور دریائے سوات کے دیار میں دو زندہ و تابندہ جڑواں بستیاں بڑی بے ہنگم طور پر پھیل رہی ہیں…… جن کے نام ہیں کوٹہ اَبوہا۔ اُن کو بستیاں کہنا لفظ بستی کی بے حرمتی ہے کہ اِن میں کل کی اُس بستی پن کی رونق آج کہاں……! آبادی کی بے ربط وبے ترتیب بڑھوتری کے باعث دونوں آپس میں ایسے مدغم ہوئی ہیں کہ پتا نہیں چلتا…… کس بستی کا سر کہاں ہے اور پیر کہاں……؟ ویسے ابوہا کا نام ہمیں ’’آب و ہوا‘‘ کی بگڑی ہوئی شکل لگتا ہے۔ دریائے سوات کی آب وہوا کا کوٹہ ابوہا کی بودو باش پر پڑنے والے فیوض وبرکات کے اثرات کتنے بھاری ہیں؟ یہ یہاں کے باسیوں کے خوش رنگ چہروں، سرسبز فصلوں، اناج کی شیرینی، پہاڑیوں کی شادابی، ماحول کی پاکیزگی اور ہواؤں کی ٹھنڈک اور تر و تازگی سے عیاں ہے۔ تاریخ میں اِن بستیوں کا مقام کئی حوالوں سے نمایا ں ہے۔ جیسے ریاست کے قیام کے تگ و دو میں یہاں کے باسیوں کا کردار،آثارِ قدیمہ کے وسیع ذخائر…… فی الوقت جن کے نام موجود ہیں لیکن نشان نہیں، ریاستی دور کا وہ تاریخی قلعہ…… جو اَب دیکھتی آنکھوں کو دکھائی نہیں دیتا اورہاں، پھلوں بالخصوص آڑو کے باغات کے دور دور تک پھیلے ہوئے وہ سلسلے…… جواشرافیہ کے ناز، آڑھتیوں کے نخروں اور بھوکی جنتا کی روزی روٹی کا وسیلہ ہیں۔ دو اور حوالوں سے بھی ابوہا کا نام بڑانامی گرامی ہے۔ ایک پشتو لوک ادب کے رومانوی کردار نیمبولا خاپیرے اور بیگم جان بنتِ حوا کی داستان۔ یہ کلاسیک شاہکار پشتو گیت ’’بدَلہ‘‘ کے صنف میں وحید گل نامی فنکار نے بڑے جوش و خروش اور روانی کے ساتھ گایاہے۔
ابوہا کے یو مُلا بہ اوسیدو
طالبان بہ دے مُلا تہ ٹولیدو
دہ سلام وَکو پہ مینہ دہ مُلام
ُلا اووے پہ خیرراغلے نیمبولا
معذرت! یہ رومیوں اینڈ جولیٹ جیسی رومان پرور سیریز ہے نہ صحرائے عرب کے لیلہ مجنوں یا فارس کے شیرین فرہاد جیسی شیریں کہانی، سواِس میں زیادہ ’’اِنوالو‘‘ ہونے کی حاجت ہے نہ ہمارے شاہ جی کی طرح کان کھڑے کرنے کی ضرورت۔ بس نیمبولا سلطنتِ پرستان کا شہزادہ تھا اور مسمی بیگم جان یہاں کی ایک پری وش دوشیزہ…… جس کے درجنوں عاشق تھے۔ طالب کی شکل میں موجود نیمبولا بھی چھپے رستم کی طرح اِسی صف کا نمایاں سپاہ نکلا۔ جب کہ معصوم بیگم جان جس کی منگیتر تھی، اُسی کی دیوانی تھی۔ لتا منگیشکر کے بھی تولاکھوں دیوانے تھے لیکن وہ خود جوانی میں چندر مُکھی کی دیوانی تھی۔ ’’نیمو‘‘ کو اُستاد ملا بادر کی ’’بیہاف‘‘ پر بار بار سمجھایا بجھایا گیا کہ وہ یہ غیر فطری عاشقی چھوڑ کر اپنے پرستان کی دُنیا میں دفع ہو جائے۔ کیوں کہ:
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
  پند و نصائح کی پوٹلی اور پھونک وونک کے عمل کا ظاہر ہے عاشقِ نامراد پرکوئی اثر نہ ہونا تھا…… سو نہ ہوا۔ قصہ مزید مختصر، مولوی ملا بہادرنے ترنگ میں آ کر اُسے کوزے میں بند کرکے جلا ڈالا۔ ردِعمل میں مرحوم کے اپنے پرائے جنات اجتماعی طور پرملا بادر کے خلاف کمر بستہ ہوگئے۔ اُس کے گرد گھیرا تنگ کردیا۔ موقع پاتے ہی پھانسی دی اور لاش ناگوہا پہاڑی کی ایک چوٹی پر ’’پبلک ڈسپلے‘‘ اور سبق سیکھنے کے لیے لٹکا دی۔ ثابت ہوا کہ گھیراؤ، جلاؤ اور لٹکاؤ اپنے ’’اشراف‘‘ و ’’جنات‘‘ دونوں کا بیک وقت ماضیِ بعید سے وتیرہ رہا ہے، اللہ اللہ خیر سلّا۔
ابوہا کا اگلا اور اصل حوالہ وہ مشفق، مہربان ومعتبر ہستی ہے…… جو نیمبولا کی طرح عشق کے عارضہ میں نتھنوں نتھنوں ڈوبی ہوئی ہے۔ اُن کی عشق کسی گل پری بی بی سے نہیں…… بلکہ اِس عارضِ گل رنگ وطن وادیِ سوات کی مٹی سے ہے۔ مبلغ 78سال پہلے جس کے دارالخلافہ سیدو شریف میں اُن کی آمد ہوئی۔ تب یہ ایک خودمختار ریاست تھی۔ والدِ گرامی محمد عظیم صاحب کا یہاں تعین ہوا تھا۔ اس لیے وہ بھی یہیں پلے بڑھے۔ یہیں کے سرکاری سکول اور کالج سے علم کے نور سے منور ہوئے ۔1961ء میں ریاست کے ’’پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ سیدوشریف‘‘ میں ملازمت کی شروعات کی…… جو تب طاقت کا سرچشمہ تھا…… اور اِس سرچشمے میں  18 سال کے الہڑ نوجوان کے کمزور کندھوں پر تقرر کے دوسرے ہی دن سے بڑی اہم ذمہ داری آ پڑی تھی…… جو وہ بہت خوش اسلوبی اور دل لگی کے ساتھ نبھاتے ہوئے محنت، مہارت اور ایمان داری میں نام و مقام بناتے گئے…… اور اپنے افسروں اور ریاست کے والی کا اعتماد حاصل کرتے رہے۔ حتیٰ کہ پلوں کے نیچے ڈھیرسارا پانی بہتا بہتا 2003ء آگیا اور جہدِمسلسل کایہ جیتا جاگتا نمونہ کارِسرکار سے سبک دوش ہو کر اِسی ابوہا بستی پلٹ آیا…… جہاں اُن کے بزرگوں کا خمیر تھا۔ عمر کی 8 دہائیاں گزارنے کو ہیں اور اب بھی الحمداللہ اِس چلتی پھرتی دُنیا کے ساتھ ذوق و شوق کے ساتھ چل پھر رہے ہیں…… بڑی جی داری کے ساتھ۔
مبلغ 43 سال کی خدمات کے دوران میں اس وطن کا چپا چپا، کونا کونا چھان مارا۔ یہاں کے حسن و خوب صورتی کے جو رنگ ڈھنگ انہوں نے محسوس کیے، سماجی ومعاشرتی طرزِ زندگی کے جو ’’وارے نیارے‘‘ ملاحظہ کیے، حق و انصاف کا جو بول بالا دیکھا، ترقیاتی کاموں کا جو بچھتا اور پھیلتا جال دیکھا، ریاستی دور کا مثالی امن مع عروج و زوال دیکھا، تیسری آنکھ سے معلومات کے اِس ذخیرے کو محفوظ کیا۔ اب وہ گھر بیٹھے اپنی یادداشت کی گٹھڑی میں محفوظ پڑے چشم دید واقعات، حالات کی مناسبت سے نکال نکال کر تحریر کی صورت میں’’عکس ناتمام‘‘ کے نام سے اخباروں میں پیش کرتے رہتے ہیں،جنہیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کی یادداشت کا کلیجا کتنا تازہ دم اورزرخیزہے…… ماشاء اللہ!
کوئی سال ڈیڑھ پہلے آپ کے کالموں کا پہلا مجموعہ ’’عکسِ ناتمام‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوا۔ شعر و شاعری کے میدان میں بھی کسی سے کم نہیں۔ ڈاکٹر امیر فیاض پیرخیل صاحب کے ساتھ پشتو میں شاعری کی ایک دلچسپ کتاب ’’یو طرز دوہ خیالونہ‘‘ لکھی، جو فضل ربی راہیؔ صاحب کے مطابق ایک منفرد کوشش ہے۔ اُ ردو زبان میں اخبارات کے لیے آپ کے لکھے ہوئے پُرلطف و پُرمغز قطعات کی تعداد اتنی ہوگی…… جس سے ایک ضخیم کتاب بن سکتی ہے۔ یہ قطعات درحقیقت ہمارے نظامِ ریاست و سیاست پر کاری ضرب اور معاش و معاشرت پر شدید طنز کا برملا اظہاریہ ہیں۔
ان کی تحاریر میں اُس دور کی رسم و رواج اور سماج کی جھلکیاں نگینے کی طرح جھلکتی ہیں۔ جیسے اپنے ایک کالم ’’پُرانے سیدو شریف کی طعام گاہیں‘‘ میں بچپنے کا دوَر یاد کرکے لکھتے ہیں: ’’شریف اللہ نامی قصاب نے تور جرمن (ہوٹل) کے پڑوس میں کڑاہی لگا کر کباب کی دوکان کھولی۔ ارزانی اتنی تھی کہ آپ کو ایک آنے کا کباب بھی ملتا تھا۔ سردیوں میں اس کے ہاں بھیڑ لگی رہتی تھی۔ البتہ گرمیوں میں کاروبار مکمل طور پر بند ہوتا۔ یہ سب کچھ جیسے بھی تھا مگر پُرسکون اور خوشگوار ہوا کرتا تھا۔ کوئی اضطراب نہ بے چینی، چوری چکاری، قتل وغارت گری نہ دہشت گردی۔ لوگوں میں پیار و محبت اور احترام کا رشتہ ہوا کرتا تھا۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ ہماری یہ جنتِ ارضی بہت جلد اُجڑنے والی ہے اور ہمیں بھیڑیے کھانے والے ہیں۔‘‘
وطن سے محبت کا یہ حال ہے کہ 16 دسمبر 1971ء کی رات ڈگر ریسٹ ہاؤس میں انہوں نے سقوطِ ڈھاکہ کا واقعہ ریڈیو پر سن کر جو رونا رویا…… وہ درد انگیزکیفیت ایک عرصہ بیت جانے کے باوجود اُن کے دل ودماغ پر چھائی رہی۔ حساس لیکن شگفتہ مزاج کی مالک یہ ہستی ’’فضل رازق شہابؔ‘‘ کی ہے…… جو اِس وقت جسمانی طور پر مقیم توسوات کے اِسی سرحدی بستی لنڈاکی کے پہلو اور دریائے سوات کی ہمسائیگی میں ہیں لیکن دل و دماغ سیدو شریف میں تب کے اٹکے ہوئے ہیں جب سے وہ پیدا ہوئے ہیں۔ ایک عرصہ سے اُن پر اور بین الاقوامی سطح کے مؤرخ و محقق ڈاکٹر سلطانِ روم صاحب کی شخصیت پر لکھنے کی شدید خواہش رہی…… لیکن بعض لوگوں پر قلم کشائی کرنے سے قلم بھی جھجھک کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہ دونوں احباب بھی اُن چند اصحاب میں شامل ہیں۔ یہ اس میدانِ کارزار کے زمین دار ہیں اور ہم مزارع۔
کہتے ہیں کہ زندگی میں بعض لوگ خوشبو کی مانند ہوتے ہیں، ساتھ ہوتے ہیں نہ پاس…… لیکن ان کی چاہت، ان کا خلوص، ان کی باتیں تا عمر ہماری سوچ، میں ہمارے الفاظ میں، ہماری زندگی کے ہر پہلو میں مہکتے رہتے ہیں۔ ہمارے سوات میں ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ شہابؔ صاحب کا نام انہی چند لوگوں میں شامل ہے۔ وہ ریاست کے تب کے والی میاں گل عبدالحق جہانزیب کے دَور کے چلتے پھرتے انسائیکلو پیڈیا اور وادئی سوات کے دوچار اہلِ قلم قلندروں میں سے ایک ہیں۔ وہ اِس دھرتی کے بیٹے ہیں اور یہاں کی درخشندہ روایات اور سماجی اقدارکے امین۔
قارئینِ کرام، محترم افتخار عارفؔ کے یہ اشعار اُن پر کتنے صادق آتے ہیں…… اُن کو پڑھنے والے قارئین خوب جانتے ہیں۔ ملاحظہ ہوں:
میں اپنے خواب سے کٹ کر جیوں تو میرے خدا
اُجاڑ دے مری مٹی کو در بہ در کر دے
مری زمین مرا آخری حوالہ ہے
سو میں رہوں نہ رہوں اس کو بارور کردے

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں