فضل مولا زاہدکالم

اُونٹ کو عزت دو

بڑی پرانی روداد ہے۔ طالب علم نے امتحان میں فیل ہونے کے فیصلے کے خلاف شکایت کی۔ پرنسپل نے وجہ جاننے کے لیے متعلقہ ماسٹر کو لڑکے سمیت دفتر بلا لیا۔ صفائی پیش کرتے ہوئے استاد نے بڑے پُراعتماد انداز میں اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا، یہ لڑکا عجیب ہے۔ اساتذہ کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسے لکھنے کو موضوع جو بھی دیا جائے، چند جملوں کے بعد یہ اُس سے ہٹ کر بات کی رُخ کو اپنی من پسند موضوع کی طرف لے جاتا ہے، جس کو چیک کرنے پر استاد کا وقت الگ ضائع ہوجاتا ہے، طالب علم کا الگ۔ مثال کے طور پر ایک دفعہ اسے موسمِ بہار پر مضمون لکھنے کو کہا گیا۔ اس نے جو جواب لکھا، وہ اِس تحریر سے ظاہر ہے: ”موسموں میں بہار بہت خوبصورت موسم ہوتا ہے۔ اسے موسموں کا بادشاہ مانا جاتا ہے۔ ہر طرف خوب صورت سماں، صاف ستھری تازہ ہوا، پھل پھول اور سبزہ ہی سبزہ نظروں کو تراوت بخشتا ہے۔ جیسے موسمِ سرما کا زور ٹوٹتا ہے، تو پہاڑوں، میدانوں اور صحرا ؤں میں بہار اپنی آنکھیں کھولتی ہے۔ انسان تو چھوڑ، اُونٹ بھی اس موسم میں بڑے خوش اور پُرجوش ہوتے ہیں۔ اُونٹ کی بات آئی ہے، تو بتا دوں کہ اُونٹ اتنا طاقت ور جانور ہے کہ اس کو صحرائی جہاز کہا جاتا ہے۔ یہ جتنا کھاتا ہے، اتنا اُٹھاتا ہے۔ میلوں کا سفر طے کرکے بھی نہیں تھکتا۔ کئی کئی دن اس کو خوراک نہ بھی ملے، تو اپنے معدہ کے فوڈ اسٹوریج پر گزارا کر سکتا ہے۔ ریگستانوں میں یہ باربرداری کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کوئی مانے نہ مانے، اونٹ اور بہار کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔“
پرنسپل صاحب نے جواب پڑھا۔ کچھ دیر کے لیے سوچا۔ پھر اُستاد کے کان میں سرگوشی کی۔ اونٹ کی بات تو بہار کے حساب سے بے محل نہیں۔ دونوں کی آپس میں مناسبت ضرور ہے، جس کی وجہ سے فیل ہونا نہیں بنتا۔ تاہم اسے کوئی اور موضوع دے کر دیکھ لیں۔
ہٹ دھرم ماسٹرجو ہر صورت لڑکے کو فیل کرنے کا تہیہ کرچکا تھا، نے لڑکے کی اونٹ سے رغبت کی ایک اور زندہ جاوید ”ایکویشن“ پیش کرتے ہوئے کہا، ایک دفعہ اس کو گاڑیوں کے صنعت پر لکھنے کوکہاگیا۔ تو اس نے لکھا: ”گاڑیوں کی صنعت میں جاپان دنیا میں سب سے آگے ہے۔یہ پوری دنیا کو گاڑیاں برآمد کرتا ہے۔ گلوبل مارکیٹ میں اسی اجارہ داری کی وجہ سے جاپان کئی ترقی یافتہ ممالک کی آنکھوں میں کھٹکتا بھی ہے۔ پاکستان میں تو نوے فیصد گاڑیاں اس ملک سے ”امپورٹ“ ہوتی ہیں۔ ہمارے ملک میں پیٹرول بے تحاشا مہنگاہے۔ اس لیے میری تجویز ہے کہ ہم سواری کے لیے متبادل آپشن پر سوچیں، جیسے اونٹ۔ اونٹ کی بات آئی ہے، تو بتادوں کہ اونٹ اتنا طاقت ور جانور ہے کہ اس کو صحرائی جہاز کہا جاتا ہے۔ یہ جتنا کھاتا ہے، اتنا اٹھاتا ہے۔ میلوں کا سفر طے کرکے بھی نہیں تھکتا۔ کئی کئی دن اس کو خوراک نہ بھی ملے، تو اپنے معدہ کے ”فوڈ سٹوریج“ پر گزارا کرسکتا ہے…… وغیرہ وغیرہ۔ گاڑیوں کی صنعت میں جاپان کی اجارہ داری ختم کرنا مطلوب ہے، تو اونٹ کو عزت دو۔“
مضمون پڑھ کر پرنسپل پریشان ہوا۔ اسے بیک وقت ماسٹر کی عزت ملحوظِ خاطر رکھنا بھی مقصود تھا اور طالب علم کو انصاف دلوانا بھی مطلوب تھا۔ اِس ”لینڈ لاک“ صورتِ حال میں اُس نے ایک ترکیب سوجھتے ہوئے کہا، میرا خیال ہے کہ یہ جواب، گاڑی اور اُونٹ دونوں میں بوجوہ سواری کی قدر مشترک ہونے کا شاخسانہ لگتا ہے۔ اس کو کوئی ایسا مختلف موضوع دے کر دیکھا جائے، جس کا اُونٹ سے دور کا تعلق واسطہ بھی نہ ہو۔ اپنے کیے دھرے پر سٹینڈ لیے ہوئے ماسٹر جی نے بتایا، جی سر جی سر! جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ ایک دفعہ میں نے اسے بالکل ہی الگ موضوع دیا، جس میں اُونٹ کا ذکربنتا ہی نہیں تھا۔ ہم نے اسے کمپیوٹر پر کچھ لکھنے کو کہا، تو پتا ہے اس نے کیا لکھا؟ ایک پیپر پرنسپل کے سامنے رکھتے ہوئے ماسٹر نے کہا، یہ ”انسر شیٹ“ حاضر ہے۔ خود پڑھ کر دیکھیے۔ پرنسپل پڑھتا رہا اور سر کھجاتا رہا۔
”کمپیوٹر پچھلی صدی کی حیران کن ایجاد ہے۔ اس سے مہینوں کا کام منٹوں میں ہونا ممکن ہوا۔ بنی نوع انسان کو اس کی وجہ سے بڑی آسانیاں اور کامیابیاں ملیں۔ موجودہ نسل اپنا سارا کام اِسی مشین پر کرتا ہے لیکن غیر تعلیم یافتہ طبقہ کمپیوٹر کی جدتوں سے ناآشنا ہے۔ کیوں کہ وہ اپنی روایتی سرگرمیوں کے خول میں بند رہ کر جی رہا ہے۔ بالخصوص صحراؤں میں رہنے والے لوگوں کے لیے تو کمپیوٹر ایسا ہے جیسے اندھے کوبسنت کی بہار۔ ہاں! ان کو اگر کچھ پتا ہے، تو وہ ہے اُونٹ۔ اُونٹ اتنا طاقت ور ہوتا ہے کہ اس کو صحرائی جہاز کہا جاتا ہے۔ یہ جتنا کھاتا ہے اتنا اٹھاتا ہے۔ یہ میلوں کا سفر……و علیٰ ہذاالقیاس!
پرنسپل نے یہ پڑھا، تو ایک مزید چانس دیتے ہوئے طالب علم کو روڈ ایکسیڈنٹ کے موضوع پرلکھنے کو کہا اور تاکید کی کہ موضوع سے اِدھر اُدھر ہٹنے نہ پائے۔ طالب علم نے بڑے طمطراق سے مضمون کی شروعات یوں کی: ”ایک دفعہ میں بس کے ذریعے مکہ شہر جا رہا تھا۔ ڈرائیور ہائی وے پر گاڑی چلا رہا تھا۔ عربی میوزک بج رہا تھا۔ ”بس ہوسٹس“ بڑی شان و شوکت سے سواریوں کو کولڈ ڈرنک فراہم کر رہی تھی۔ ایسے میں ایک ایسے علاقے سے گاڑی گزرنے لگی جہاں پر اونٹوں کے غول کے غول روڈ کراس کرتے ہیں۔ وہاں پر گاڑی تیز رفتاری کے باعث اُونٹوں سے ٹکرا کر اُلٹ گئی۔ اُونٹ کی خاص بات یہ ہے کہ وہ گاڑی سے ڈرتا ہے اور نہ راستہ ہی چھوڑتا ہے۔ کیوں کہ اُونٹ اتنا طاقت ور ہوتا ہے کہ اس کو صحرائی جہاز کہا جاتا ہے۔ یہ میلوں کا سفر کرکے…… وغیرہ وغیرہ۔ صحرائے عرب میں اُونٹ بہت پاپولر ہیں،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کی بے پروائی کی وجہ سے ہائی وے پر حادثات بہت ہوتے ہیں۔ ”اونٹ کو تحفظ دو۔“
پرنسپل پڑھتا رہا۔ سر کھجاتا رہا اور سیخ پا ہوتا رہا۔ اُس کے تیور دیکھ کر شاگرد کو یقین ہوگیا کہ اس کے ساتھ ظلم ہونے والا ہے۔ اس نے جوابی پرچہ پرنسپل کے سامنے سے اٹھا کر دفتر سے احتجاجا ً”واک آوٹ“ کیا اور علاقہ قاضی کی خدمت میں ایک درخواست داخل کی، جس کا متن یہ تھا:
عزت مآب بحضور جناب قاضی القضا صاحب، اسلامی جمہوریہ موریتانیہ!
عرض بہ حضورِ انور یہ ہے کہ بندہ اپنے سکول کے ذہین طالب علموں میں سے ایک ہے۔ بندے کی ذہانت کا پوری کلاس گواہ ہے۔ ایک نئے استاد کے آنے سے قابلیت کے اقدار و پیمانے بدلے، جس سے بندے کا مستقبل داؤپر لگ گیا۔ کیوں کہ وہ ہر صورت سمجھ دار بندے کو ناپسند کرتا ہے اور اسے فیل کروانے کے درپے رہتاہے۔ مہینوں مہینوں بندے نے استاد کے ناروا رویے پر ایسا صبر کیا جتنا اُونٹ اپنے مالک کے ظلم پر کرتا ہے۔ مالک اونٹ سے کام بھی لیتاہے اور اس کو تنگ بھی کرتا ہے۔ حالاں کہ آپ جانتے ہیں کہ اونٹ کتنا بُردبار جانور ہے۔ یہ تو صحرائی جہاز ہے…… وعلیٰ ہذاالقیاس۔
جناب عالی! آپ تو جانتے ہوں گے کہ اونٹ کا گوشت نہایت ہی لذیذ ہوتا ہے، جو آپ نے نہیں کھایا ہوگا۔ آپ میرے علاقے کو رونق بخشیں، تو دیکھیں گے کہ ہر طرف اونٹ ہی اونٹ ہیں۔ آپ کو اونٹ کا گوشت کھلاؤں گا، اونٹنی کے دودھ میں پکا ہوا،جو بہت ہی عمدہ اور صحت کے لیے مفید ہوتا ہے۔
براہِ کرم استاد صاحب کو میرے ساتھ ظلم کرنے سے باز رہنے کی ہدایت دی جائے۔
والسلام!
طالب علم،خونہ احمد نواکشوط۔
عدالت میں پہلی بار حاضری کے وقت طالب علم کی قابلیت جانچنے کے لیے نظامِ عدل پر کوئی تحریر لکھنے کو کہا گیا۔ اُس نے لکھا: ”عدل کسی ریاست کے ڈھانچے کے بنیادی ستونوں میں ایک ہوتا ہے۔ کسی نظام کا بنیاد عدل سے آغاز پاتا ہے اور عدل پر ہی انجام پاتا ہے۔ ہمارے ملک کے انصاف کا نظام ہاتھی کے دانت کے مصداق ہے جو کھانے کے اور ہیں دکھانے کے اور۔ اِس کی مثال اونٹ جیسی ہے۔ دونوں،یعنی عدلیہ اور اُونٹ میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ دونوں کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ دونوں، یعنی عدلیہ اور اونٹ میں قدرِ غیر مشترک یہ ہے کہ اونٹ کو صحرائی جہاز کہا جاتا ہے۔ یہ جتنا کھاتا ہے، اتنا اٹھاتا ہے، جب کہ عدلیہ کھاتا اور کماتابہت ہے لیکن انصاف کم کرتا ہے۔ یہ وہ سفید ہاتھی ہے جو مملکت کے لیے بوجھ بنا ہوا ہے۔اس کے رکھ رکھاؤ کا خرچ بے حساب جب کہ فائدہ اونٹ کے منھ میں زیرہ کے برابربھی نہیں، وغیرہ وغیرہ۔“
قاضی کی عدالت میں طالبِ علم کی لکھی گئی تحریرپیش ہونے کے بعد اُس پر لامحالہ توہینِ عدالت کا کیس بن گیا ہوگا، لیکن آگے کی ”پروسیڈنگز“ کا ہمیں علم نہیں ہوسکا۔ کیوں کہ عین اُس وقت جب قاضی اپنا لکڑی کا ہتھوڑا میز پر مار مار کر ”آرڈر آرڈر“ کہہ رہا تھا، اُس کے شور سے ہم گہری نیند سے بیدار ہوگئے۔
جاگنے سے پہلے آخری نظر میں ہم نے متعلقہ طالبِ علم کوسفید ڈاڑھی اور ٹیڑھا کمر لیے عدالت کے کٹہرے میں لڑکھڑاتا دیکھا، اوراُس کے منھ سے یہ آخری الفاظ سنے: ”اونٹ کو عزت دو۔ کیوں کہ یہ ہماری صحرائی زندگی کا اوڑھنا بچھونا ہے۔“
بقولِ شاعر
کیسے منزل پر پہنچتا کوئی
راہ میں راہ نما بیٹھے ہیں

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں