غلام احد ایڈووکیٹکالم

جمعہ خانہ ڈز کوہ

  جس وقت آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے، اُس وقت روزے شروع ہوچکے ہوں گے۔ تاہم ابھی سے (الحمد اللہ) استقبالِ رمضان کی تیاریاں زور و شور اور خالص دینی جذبے سے جاری ہیں۔ اشیائے خور و نوش خریدی جا رہی ہیں۔ معمول سے زیادہ عبادات کے پختہ ارادے باندھے جا رہے ہیں۔ روزے رکھے جائیں گے۔ مساجد نمازیوں سے بھر جائیں گی۔ تراویح پڑھی اور پڑھائی جائیں گی۔ فرض نمازوں کے علاوہ نوافل پڑھی جائیں گی۔ روزہ دار کثرت سے قرآنِ پاک کی تلاوت میں مشغول ہوں گے۔ تہجد کی نماز پڑھنے کے لیے سویرے سویرے بیداری ہوگی۔ سحری کے وقت اپنے اپنے پسند کے کھانے ہوں گے۔ کوئی چاول کھانے کا اور کوئی انڈوں اور پراٹھوں سے روزہ رکھنے کا عادی ہوگا۔ ہر کوئی اپنی پسند اور طبع کا مالک ہوگا۔ عام دنوں کے مقابلے میں جھوٹ، غیبت اور فحش کلامی سے پرہیز کیا جائے گا۔ ایک مکمل دینی ماحول ہوگا۔ اِفطار کے وقت گھروں میں دسترخواں بچھے جائیں گے۔ اللہ کی رحمت جوش پر ہوگی۔ رزق کی فراخی ہوگی۔ طرح طرح کے کھانے، ترکاریاں، مشروبات اور حسبِ استطاعت پھل فروٹ سجائے جائیں گے۔ بے چینی سے افطار کے وقت کا انتظار کیا جائے گا۔ وقتِ مقررہ پر بہ یک وقت مختلف مساجد کے لاوڈ سپیکروں سے اللہ اکبر کی پُرہیبت، پُرجلال اور پُرشکوہ آوازیں گونجیں گی۔ اذان کے فوراً بعد مغرب کی با جماعت نمازیں پڑھی جائیں گی۔ اِفطار ہوگا۔ ہر عمل پوری ترتیب کے ساتھ ہوگا۔
سحری اوراِفطار اپنے مقررہ شرعی وقت پر ہوگا۔ کسی بھی بھول چوک کا اندیشہ نہ ہوگا۔ کیوں کہ اس جدید دور میں، جدید سائنسی ذرائع کی موجودگی میں کسی تعدیل اور تاخیر کا خدشہ نہیں۔ صحیح اور درست اوقات معلوم کرنے میں کوئی رکاوٹ اور دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ اوقات معلوم کرنے کے ذرائع نہ ہونے کے برابر تھے۔ بڑی مشکل سے کئی ہزار افراد میں سے کسی ایک کے پاس کلائی یا جیبی گھڑی ہوا کرتی تھی۔ یہ تو محض ہماری یادداشت کا حال ہے۔ پتا نہیں ہم سے بھی پہلے پرانے زمانے میں کیسی حالت ہوتی ہوگی۔
درست اوقات معلوم کرنے میں خاصی مشکل اور شکوک و شبہات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ خاص کر بارش یا مطلع صاف نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اٹکل سے روزہ افطار کرتے تھے، یعنی ’’پہ ٹوپ بہ ئے ماتولہ مازیگر چہ بہ باران وو۔‘‘ کئی بار تو ایسا بھی ہوا کہ غروب کے نزدیک اچانک گردو غبار اور طوفان باد و باراں کی وجہ سے آسمان پر دھند چھا جاتی۔ گھپ اندھیرا ہوجاتا اور لوگ یہ گمان کرکے کہ اِفطار کا وقت ہوچکا ہے، روزہ کھولتے…… لیکن پھر یک دم بادل چھٹ جاتے۔ مطلع صاف ہوتا اور انھیں اپنی غلط فہمی کا احساس ہوتا یعنی ’’اب پچھتائے کیا ہووت جب چڑیا چگ گئیں کھیت‘‘ کے مصداق پانی سر سے گزر چکا ہوتا۔ تاہم ریاست کے بیدار مغز حکم رانوں نے اس طرف بھی توجہ دی۔
اس مشکل کے حل کے لیے ایک مقامی شخص کو مجوزہ یعنی سحری اور اِفطار کے مقررہ اوقات پر توپ داغنے کی ذمے داری سونپ دی۔ اس کا نام جمعہ خان تھا۔ میاں گانو چم میں کرایہ کے ایک مکان میں رہایش رکھتا تھا۔ اس اہم ذمے داری کی تعمیل کے لیے اُس نے اپنے ایک رشتہ دار جس کا نام جرمنے تھا اور سیدو شریف میں اسلحہ بنانے کے کارخانے میں آہن گر تھا، سے خالص لوہے (آج کل کے جمبو پیپسی بوتل کے سائز کارتوس) کا مضبوط خول بنوایا۔ جمعہ خان میں اس خول کا ایک خاص ہنر اور مہارت سے بارود سے، جو اُسے سرکاری گودام سے فراہم کیا جاتاتھا، لبالب بھردیتا۔ اُس بھرے ہوئے خول کو اپنے کندھے پر لاد کر مقررہ جگہوں پر یعنی افطاری کے وقت سیدو شریف کے انتہائی جنوب کی طرف واقع سیمنٹ گودام کے عقب میں پہاڑی کے دامن میں اور اس طرح سحری کے وقت بادشاہ صاحب کے محل تک جانے والی سڑک سے متصل جانبِ مغرب ایک ڈھلوان میدان میں جا پہنچتا۔ اُس وقت آج جیسی بے ہنگم اونچی نیچی عمارتیں تھیں اور نہ بے تحاشا ٹریفک کا شور و غل ہی تھا۔ وقت پورا ہونے پر اُسے والیِ سوات یا بادشاہ صاحب کے بنگلے سے کوئی اردلی پورے زور سے چلا کر کہتا: ’’جمعہ خانہ، ڈز کوہ!‘‘ یعنی جمعہ خان، توپ داغ دو۔ وہ توپ کو آگ دکھاتا۔ پہلے دھواں سمیت ایک شعلہ اُٹھتا اور فوراً بعد ایک زوردار دھماکا ہوتا۔ دھماکے کی آواز سیدوشریف کے اِرد گرد کے علاقوں، علیگرامہ، ڈھیریٔ اور کانجو تک سنائی دیتی اور یوں سارے روزہ دار ایک ہی وقت پر روزہ اِفطار کردیتے۔ گرمی ہوتی یا سردی، بارش ہوتی یا بادو باراں، جمعہ خان نے کبھی اپنی ذمے داری میں تاخیر نہیں کی۔ کبھی کبھار اُس کے بیٹے عبدالوارث (مرحوم) اور عبدالواحد (مرحوم) بھی اُس کا ہاتھ بٹایا کرتے۔ جمعہ خان کو 30 روپے نقد اور ساتھ ہی دو من جوار اور دو من گندم ہر سال اُجرت کے طور پر دیا جاتا تھا۔ جمعہ خان اس خدمت کو اپنے لیے باعثِ عزت سمجھتا۔ وہ بادشاہ صاحب کے ہم عمر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اُن دنوں بادشاہ صاحب کا رہایشی مکان سیدو بابا مسجد کے پاس عین اُس جگہ جہاں اب جنازے کی نماز پڑھی جاتی ہے، واقع تھا۔ جمعہ خان لڑکپن اور جوانی میں بادشاہ صاحب کے ساتھ کھیلا کودا تھا۔ بادشاہ صاحب کے بادشاہ بننے کے بعد بھی جمعہ خان اُنھیں اُن کے ذاتی نام عبدالودود سے مخاطب کرتا تھا، لیکن بادشاہ صاحب نے کبھی اپنے بچپن کے یار کا برا نہیں مانا۔ جمعہ خان کے توپ داغنے کے بارے میں ایک قصہ سا بھی مشہور چلا آرہا ہے جو کہ زبان زد عام و خاص ہے۔ یعنی
جمعہ خان ڈز اوکہ
ڈز پہ مازیگر اوکہ
نقدر روپئے والہ گل اندامے لہ پنڑے اوکہ
گل پہ دہ تیگے اوکہ
اِس دوران میں جمعہ خان نے اپنے کرایہ کے مکان کو جو شکر میاں کی ملکیت تھی، بی بی ابئے یعنی بادشاہ صاحب کی والدہ صاحبہ کی مالی مدد سے مبلغ 35 روپے میں خریدا۔ جمعہ خان 1973ء میں وفات پاچکے ہیں۔ اُس کے پوتے فضل خالق اور فضل رحمان جو کہ سہراب خان چوک کے پیچھے تیرکشی شہید کی قبر کے قریب ایک دکان میں فرنیچر بنانے کا کام کرتے ہیں، ابھی تک اُس مکان میں رہایش پذیر ہیں، جس میں اُن کے دادا نے ایک طویل زندگی گزاری۔ اللہ جمعہ خان کے درجات بلند کرے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں