جلال الدین یوسف زےکالم

نوابِ دیر کو محل تعمیر بارے انگریز سرکار سے ملا ہوا قرضہ

متحدہ ہندوستان میں لگ بھگ 565 نوابی ریاستیں موجود تھیں اور ان کا رقبہ مجموعی ہندوستان کے رقبے کا تقریباً ایک تہائی بنتا تھا۔ ان ریاستوں کی تاریخ اور انگریز حکومت کے ساتھ ان کے تعلقات نہایت ہی دلچسپ موضوع ہیں۔ ان ریاستوں کے حکمرانوں کو انگریز حکومت کی طرف سے باقاعدگی سے سالانہ الاؤنس (Annual Subsidy) ملتا تھا۔ یہ رقم یکساں نہیں تھی بلکہ مختلف ریاستوں کے حکمرانوں کو مختلف تناسب سے دی جاتی تھی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ کچھ ریاستوں کے حکمرانوں نے ان الاؤنسز پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ ہندوستان میں برطانوی حکومت سے ذاتی حیثیت میں قرضہ بھی طلب کیا اور اس میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔ زیرِ نظر سطور بھی دیر اور چترال کی ریاستوں کے حکمرانوں کے ایسے ہی ذاتی قرضوں کے متعلق ہیں۔
نوابِ دیر کی طرزِ حکومت، اور ریاست کے شہریوں کے ساتھ اُس کے طرزِ عمل کی کہانیاں زبان زدِ عام ہیں۔ مکافاتِ عمل دیکھئے کہ 27 اکتوبر 1935ء کی رات کو نوابِ دیر ’’نواب محمد شاہ جہاں‘‘ کے شاہی محل میں آگ لگ جاتی ہے۔ یہ آگ اتنی جلدی پھیل جاتی ہے کہ نواب اور اُس کے خاندان والوں کے لیے کوئی موقع نہیں ہوتا کہ وہ قیمتی سامان کو بچانے کے لیے دوڑ دھوپ کرسکیں۔ بعد ازاں ایک ٹیلی گرام “NORWEP” پشاور سے نئی دہلی کو یکم نومبر 1935ء کو ارسال کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ اس مراسلے کی روانگی (Despatch) نمبر 501 تھا۔ اس ٹیلی گرام میں حکومتِ وقت کو مطلع کیا جاتا ہے کہ نواب کے محل میں آگ اس قدر خوفناک تھی کہ وہ اور اہلِ خانہ بڑی مشکل سے اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ آگے لکھا گیا ہے کہ اگر چہ نواب اور دیگر کی جان بچ گئی ہے، لیکن کپڑے اور فرنیچر سب جل کر راکھ ہوگیا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ نواب کا خزانہ بھی نہیں رہا، جس میں کرنسی نوٹوں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود تھا۔
نوابِ دیر شاہ جہان دعویٰ کرتے ہیں کہ اس آگ کی وجہ سے اُسے 30 تا 40 لاکھ تک کا نقصان پہنچا ہے۔ یہ مراسلہ یہاں تک محدود نہیں بلکہ اور بھی اس کے اندر سنسنی خیز انکشافات رقم ہیں۔ لکھتے ہیں کہ نواب اور اُن کے خاندان کے پاس رہنے کے لیے گھر تو کیا پہننے کے لیے دوسرا جوڑا کپڑے تک دستیاب نہیں۔ ان حالات میں ریاست کے وجود کو خطرہ درپیش ہے، اور وہ برطانوی حکومت سے مالی امداد کے لیے طلب گار ہے۔ نوابِ دیر اور ریاست تباہی کے دہانے پر ہیں اور اُس کو مالی امداد کی شدید ضرورت ہے۔ نوابِ دیر نے درخواست دی ہے کہ اُسے دیر کوہستان میں 40 ہزار درخت کاٹنے کی اجازت دی جائے، تاکہ وہ اس کی مدد سے اپنا محل دوبارہ بنواسکیں اور ریاست کے اُمور چلاسکیں۔
نواب کی یہ درخواست انگریز سرکار اس بنا پر نامنظور کرتی ہے کہ اس سے اگر ایک طرف جنگلات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا، تو دوسری طرف نواب کے لکڑی کے ’’کنٹریکٹرز‘‘ کے ساتھ نزدیکی تعلقات استوار ہوجائیں گے اور وہ اس کے زیرِ اثر آجائے گا۔ یہ عمل مستقبل میں انگریز حکومت کے لیے مشکل پیدا کرسکتا ہے۔ چوں کہ ہر حالت میں نوابِ دیر کو مدد درکار تھی، اس لیے یہ فیصلہ ہوا کہ نواب کو دو لاکھ روپے کا قرضہ دیا جائے گا۔ یہ قرضہ انگریز حکومت کی طرف سے نوابِ دیر کو بغیر سود کے دیا گیا۔ اس قرضے کی واپسی کے لیے کچھ شرائط بھی رکھی گئیں۔ نوابِ دیر پر یہ بات لاگو کی گئی کہ یہ قرضہ اُسے 20 سال میں واپس کرنا ہوگا۔ نوابِ دیر کو برطانوی حکومت کی طرف سے جو سالانہ الاؤنس دیا جاتا تھا، اُس کی رقم 50,000 سالانہ بنتی تھی۔ چناں چہ ہر سال قرضہ کی مد میں اس رقم سے 10,000 روپے کٹوتی شروع ہوئی۔
ایک اور مراسلہ جو کہ 17 اپریل 1936ء کو اُس وقت کے پولی ٹیکل ایجنٹ “Major H.H Johnson” نے ’’این ڈبلیو ایف پی‘‘ (اب خیبر پختونخوا) کے چیف سیکرٹری کے نام بھیجا، اُس میں اس کٹوتی کا ذکر موجود ہے۔ اس مراسلہ سے یہ بات آشکارا ہوتی ہے کہ انگریز حکومت قرضہ واپسی کے معاملے میں کسی کو نہیں بخشتی تھی اور ایک ایک پیسہ واپس لینے پر یقین رکھتی تھی۔
ایک اور دلچسپ مراسلہ بھی نظر سے گزرا جس پر 12 مارچ 1940ء کی تاریخ درج ہے۔ یہ مراسلہ اُس وقت کے پولی ٹیکل ایجنٹ (Major G.L Mallam) نے ’’این ڈبلیو ایف پی‘‘ کے چیف سیکرٹری کو بھیجا تھا۔ اُس خط میں دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی لکھا گیا ہے کہ نوابِ دیر کے گھر میں چار سال پہلے جو آگ لگی ہوئی تھی، اُس سے ریاستِ دیر کی مالی پوزیشن بھی بہت کمزور ہوئی ہے۔ کیوں کہ اس آگ میں ریاست کے لاکھوں روپے بھی جل چکے ہیں اور بہت سارا سونا بھی پگھل کر ضائع ہوگیا ہے۔ انگریز سرکار کی وجہ سے نواب کے سالانہ الاؤنس سے 10 ہزار کی کٹوتی بھی ریاست پہ ایک مالی بوجھ ہے۔ اس مراسلہ میں نوابِ دیر کی مزید مالی مدد کی سفارش بھی کی گئی ہے۔
یہ بات بھی دلچسپی کا باعث ہے کہ ان شخصی قرضوں میں چترال کے مہتر کا نام بھی آتا ہے، جس نے بھی 1936ء میں انگریز حکومت سے ایک لاکھ روپے قرضہ لیا تھا۔ 4 نومبر 1940ء کا ایک ’’سٹیٹمنٹ‘‘ گوشوارہ بھی سامنے آیا ہے جس میں اس بات سے پردہ اُٹھایا گیا ہے۔ اس گوشوارے کے رو سے چترال کے مہتر سے بھی سالانہ کے حساب سے 10 ہزار روپے کی کٹوتی ہوتی تھی۔ 1940ء میں لکھے گئے اس گوشوارے سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ نوابِ دیر کے ذمہ 1 لاکھ 60 ہزار روپے اور مہتر چترال کے ذمہ 70 ہزار روپے واجب الادا ہیں۔ یہ فائلز ٹٹولتے وقت یہ خیال ذہن میں انگڑائیاں لیتا رہا کہ اس ’’لسٹ‘‘ میں ریاستِ سوات اور امب کے حکمرانوں کا ذکر کیوں نہیں ہے؟ بہت دوڑ دھوپ کی لیکن ان دو ریاستوں کے حکمرانوں کے نام نہیں ملے۔ اگر ایک طرف دیر اور چترال کے حکمرانوں پر قرضوں کی بارش ہو رہی تھی، تو دوسری طرف اُس دور میں سوات کے حوالہ سے ایک اور مراسلہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ مراسلہ 27 اگست 1937ء کو پولی ٹیکل ایجنٹ نے اُس وقت کے ’’این ڈبلیو ایف پی‘‘ کے چیف سیکرٹری کو لکھا تھا۔ اس میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ برطانوی حکومت کی طرف سے ریاستِ سوات کو تعلیم کے فروغ کے لیے محض 1800 روپیہ سالانہ دیا جاتا ہے جو کہ کسی طرح بھی اُس رقم کے برابر نہیں جو ریاست کے حکمران اپنے ہاں تعلیم پر خرچ کر رہے ہیں۔ موقع کی مناسبت سے اُستاد سوداؔ کا ایک شعر ذہن میں آرہا ہے اور اُسی پر کالم کا اختتام کرنا چاہوں گا کہ
گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ براندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں