فصل ربی راہیکالم

بلیک باکس (تبصرہ)

استادِ گرامی شجاعت علی راہیؔ صاحب اپنے ممتاز ہم عصر ادیبوں اور شاعروں میں ایک قد آور ادبی شخصیت ہیں۔ منفرد لہجے کے قادرالکلام شاعر اور صاحبِ اسلوب نثرنگار ہیں۔ موجودہ دور میں انہوں نے بچوں کے لیے جو اعلیٰ منظوم و منثور ادب تخلیق کیا ہے، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ حال ہی میں ان کی خود نوشت ’’بلیک باکس‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے اپنے بچپن سے لے کر حال تک اپنی ذاتی اور ادبی زندگی کے متنوع پہلوؤں کو بڑی خوب صورتی سے سپردِ قلم کیا ہے۔
راہیؔ صاحب کی پوری زندگی درس و تدریس میں صرف ہوئی ہے۔ کوہاٹ، نتھیاگلی اور گورنمنٹ کالج لاہور سے لے کر ڈھاکہ، لندن، جرمنی اور جدہ (سعودی عرب) تک ان کے شب و روز کا بیشتر حصہ تحصیلِ علم کے علاوہ ایک استاد کی حیثیت سے دوسروں کو سکھانے میں صرف ہوا ہے۔ پاکستان لوٹنے کے بعد مختلف پرائیویٹ اور آرمی پبلک اسکولوں میں پرنسپل رہے، اور آخر میں کوہاٹ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے تقریباً گیارہ برس تک شعبۂ انگریزی میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے وابستہ رہے۔ دو دفعہ صدرِ شعبہ بھی رہے۔ آج کل بحریہ ٹاؤن راولپنڈی میں مستقل طور پر مقیم ہیں اور بچوں کے لیے تخلیقِ ادب میں سرگرم عمل ہیں۔
’’بلیک باکس‘‘ میں انہوں نے اپنی زندگی کی ان ہی سرگرمیوں کا احاطہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کا تعلق اپنے جن مشہور ہم عصر ادیبوں اور شاعروں سے رہا ہے، کتاب میں ان کا تذکرہ خوب صورت اسلوب میں کیا گیا ہے۔
راہی صاحب کی خود نوشت میں مشرقی پاکستان کے المیے کی وجوہات پر بھی بصیرت افروز روشنی ڈالی گئی ہے۔ کیوں کہ اُس دور میں وہ سکالرشپ پر ڈھاکہ یونی ورسٹی میں انگریزی ادب میں ایم اے کر رہے تھے، جب مشرقی اور مغربی پاکستان میں دوریاں جنم لے رہی تھیں۔ راہیؔ صاحب اپنی خود نوشت میں ایک جگہ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’یہاں مجھے اپنے ڈھاکہ کے قیام کے دوران ایک اور پنجابی ساتھی کا ریمارک یاد آرہا ہے جس نے کہا تھا، ’مشرقی پاکستان میں آدمی بڑی چیزیں انجوائے کرتا ہے، اور ہماری سب سے بڑی انجوائے منٹ بنگالیوں پر ہماری بر تری ہے۔‘ جب سوچنے کا انداز ایسا ہو، تو آپ یہ توقع کیسے رکھ سکتے ہیں کہ آپ اپنے بنگالی بھائیوں کو زیادہ عرصے تک اپنے ساتھ لے کر چلتے رہیں گے۔‘‘
’’بلیک باکس‘‘ ایک ذہین طالب علم، ایک ماہر استاد، ایک قادر الکلام شاعر، صاحبِ اسلوب ادیب، ایک دیدہ ور دانش ور اور سب سے بڑھ کر ایک اچھے اور بااصول انسان کی ایسی خود نوشت ہے جس کامطالعہ علم و ادب کا ستھرا ذوق رکھنے والے ہر پڑھے لکھے پاکستانی خصوصاً طالب علموں کے لیے دلچسپی اور بہت کچھ سیکھنے کا باعث بن سکتا ہے۔
بڑی شخصیات جب اپنی خود نوشت لکھتی ہیں تو اس میں عموماً وہ اپنی زندگی کے تجربات، مشاہدات اور کامیابیوں و ناکامیوں سے علم و حکمت کشید کرکے اپنے قارئین کے سامنے رکھ دیتی ہیں، جس میں سیکھنے اور سمجھنے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے ۔
جاذبِ نظر گٹ اَپ کے ساتھ 544 صفحات پر مشتمل یہ دلچسپ خود نوشت شعیب سنز پبلشرز اینڈبک سیلرز جی ٹی روڈ مینگورہ (0946-722517) نے شائع کی ہے۔ اسے لاہور میں ’’المیزان پبلشرز اردو بازار‘‘، اسلام آباد میں ’’سعید بک بینک جناح سپر مارکیٹ‘‘، کوہاٹ میں ’’کتاب گھر‘‘ اور پشاور میں ’’یونی ورسٹی بک ایجنسی یونی ورسٹی بک ایجنسی‘‘ کے علاوہ ’’پختو اکیڈمی بُک شاپ‘‘ (انور خان لالا) پشاور یونی ورسٹی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں