احسان علی خانکالم

فضل حکیم بے قصور ہیں

گذشتہ روز الف اعلان نامی غیر حکومتی تنظیم کی جانب سے ’’تعلیم دو، ووٹ لو‘‘ کے نام سے ایک منفرد تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب میں سوات کے مختلف سیاسی نمائندوں جو آئندہ الیکشن کے امیدوار بھی ہیں، کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس تقریب کا مقصد یہ تھا کہ الیکشن کے امیدوار عوام کے روبرو تعلیمی اقدامات بارے سوالات کے جوابات دیں اور یہ واضح کریں کہ ان کی الیکشن میں کامیابی کی صورت میں وہ سوات کے لیے تعلیم کی مد میں کیا اقدامات کریں گے؟ واضح رہے کہ سوات ترقی کی دوڑ کے ساتھ ساتھ تعلیمی دوڑ میں بھی متعدد اضلاع سے پیچھے ہے۔
قارئین، یہ ایک لائقِ ستائش سرگرمی تھی۔ اس کا مقصد واضح تھا، یعنی عوام سیاسی نمائندوں سے سوالات کریں گے اور سیاسی نمائندے اپنی مستقبل کی تعلیمی پالیسی کی روشنی میں کیے گئے سوالات کے جوابات دیں گے۔ پھر وہاں موجود شرکا کی مرضی کہ وہ کس کے جواب سے کس حدتک مطمئن ہوتے ہیں۔
چوں کہ راقم وہاں خود موجود تھا، اس لیے جب سوالات کی با ری آئی، تو مجھے اندازہ ہوا کہ ہال میں عوام کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی ایک تنظیم کی نمائندگی کرنے والے کئی اساتذہ بھی موجود ہیں۔ زیادہ تر سوالات سابقہ ایم پی اے فضل حکیم سے کیے جارہے تھے۔ ہال میں موجو د جذباتی اساتذہ کسی نہ کسی طریقے سے ’’مائک‘‘ حاصل کرکے سابقہ ایم پی اے فضل حکیم پر سوالات کی بوچھاڑ کرنے کی تاک میں رہتے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اساتذہ کسی خاص مقصد کے حصول کے لیے آئے ہوں۔ ان کو اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کی اس قدر جلدی تھی کہ وہ گھبراہٹ میں عوام کی جانب سے سوال پوچھنے پر راضی بھی نظر نہیں آ رہے تھے۔ سب سے پہلے ایک صاحب اٹھے۔ یہ سرکاری استاد اور اساتذہ تنظیم کے سرگرم رکن تھے۔ پروگرام کے ایجنڈے کو دیکھا جائے، تو اس کے مطابق انہوں نے تمام سیاسی نمائندوں سے مستقبل کی تعلیمی پالیسی بارے میں پوچھنا تھا، لیکن موصوف سب کو نظر انداز کرکے فضل حکیم سے مخاظب ہوئے اور ان کی حکومت کی تعلیمی پالیسیوں پر تنقید کرنے کا عمل شروع کیا۔ موصوف نے گلہ کیا کہ والئی سوات کے زمانے میں انہیں یعنی اساتذہ کو عزت دی جاتی تھی، لیکن پی ٹی آئی کی حکومت نے انہیں یہ حکم صادر کردیا کہ ’’مار نہیں، پیار!‘‘ اس موقعہ پر میرا دل چاہا کہ موصوف کو بتاؤں کہ اساتذہ کو مار پیٹ سے روکنا اساتذہ کی تذلیل نہیں بلکہ ایک تعمیری معاشرے کی جانب مثبت قدم ہے۔ خیر، سوالوں کا یہ سلسلہ بڑھتا گیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ پورے ہال میں یہ تاثر پھیل گیا کہ اساتذہ کی تنظیم کے درجن بھر سرگرم ارکان پروگرام کے بنیادی مقصد کو لات مار کر صرف اور صرف پی ٹی آئی حکومت کی سخت تعلیمی پالیسی کا غصہ سابقہ ایم پی اے پر نکالنا چاہتے ہیں۔ اساتذہ تنظیم کے ان ارکان نے ایسا ماحول بنادیا کہ ایک بہت ہی اہم تقریب منڈی ’’مچھلی بازار‘‘ میں تبدیل ہوگئی۔ سابقہ ایم پی اے کے خلاف ’’شیم شیم‘‘ کے نعرے لگائے گئے اور تہذیب کے دائرے سے نکل کر ایک طوفانِ بدتمیزی برپا کیا گیا۔
قارئین، پروگرام سے جلد واپس ہونے کی وجہ سے بعد میں ہونے والی ہنگامہ آرائی ایک ویڈیو میں دیکھی تو مایوسی ہوئی۔ میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ہمارے میڈیا کے بیشتر دوستوں نے تصویر کا ایک رُخ دکھایا۔ فضل حکیم نے اساتذہ کے سامنے جو مؤقف پیش کیا، اسے سرے سے دکھایا ہی نہیں گیا۔ ویڈیو کے اس چھوٹے سے ’’کلپ‘‘ میں صرف یہ دکھایا گیا ہے کہ فضل حکیم اساتذہ کے ساتھ الجھے ہیں اور کٹ مرنے کو تیار ہیں۔ اور یہ بالکل نہیں دکھایا گیا کہ اساتذہ کا ایسا کون سا عمل تھا جس کی وجہ سے فضل حکیم سیخ پا ہوئے۔
اب اگر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا جائے، تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس واقعہ کے پس پردہ پی ٹی آئی حکومت کے تعلیم بارے وہ اقدامات اور پالیسیاں ہیں جو بیشتر اساتذہ کو ہر گز منظور نہیں۔ بہت سارے لوگ اس بات کی گواہی دیں گے کہ سابقہ صوبائی حکومت کی تعلیمی پالیسی نے کئی اساتذہ کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ مانتا ہوں کہ ان کی بعض پالیسیاں اور اقدامات ٹھیک نہیں ہوں گے، لیکن جس طرح سرکاری اساتذہ کی حاضری اور دوسری چیزوں میں گذشتہ ادوار کے مقابلہ بہتری آئی ہے، وہ واقعی قابلِ تعریف ہے۔ لیکن یہاں اساتذہ شاید غلط جگہ، نہایت بھونڈے اور ناشائستہ طریقے سے اپنا غصہ نکالنا چاہتے تھے۔ کسی سیاسی پارٹی کی حکومت کی پالیسی کی بھڑاس ایک ایم پی اے پر نکالنا کہاں کا انصاف ہے؟
میرے لیے استاد کا مقام بہت ہی اونچا ہے۔ کسی بھی انسان کے والدین کے بعد یہ استاد ہی ہے جو اس کی رہنمائی کرتا ہے اور کئی حوالوں سے اس کی شخصیت سازی میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر ایسے ڈھیروں اساتذہ نصیب ہوئے جنہوں نے مجھے بنایا۔ ان کی وجہ سے میں کچھ سیکھنے کے قابل ہوا اور انہی کی وجہ سے زندگی میں آگے بڑھا۔ لیکن یہاں افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ کچھ اساتذہ تنظیمیں باقاعدہ ’’مافیا‘‘ کی شکل اختیار کرگئی ہیں، جو باقی اساتذہ کی بدنامی کا سبب بن رہی ہیں۔ہماری نظر میں تو استاد کا رتبہ بہت بلند ہے۔ ہمیں یہ کہیں بھی نہیں پڑھایا گیا کہ اساتذہ کسی پُروقار تقریب میں مہذب لوگوں کے سامنے بدتمیزی کریں گے۔ اگر ان اساتذہ کے مطالبات اور گلے شکوے جائز بھی تھے، تو اس موقعہ پراس کا اظہار کم از کم ناجائز تھا۔ تقریب میں سوات کی تعلیمی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے سب کو بلایا گیا تھا۔ تاکہ سب سیاست اور ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر اپنے علاقے میں تعلیمی صورتحال کو بہتر بنانے اور اپنے بچوں کامستقبل سنوارنے کے لیے مل بیٹھ کر بات کریں۔ اپنی تجاویز دیں اور سیاسی نمائندوں سے اس بابت مدد مانگیں اور ان کی رہنمائی کریں۔ مگر اساتذہ کی ذکر شدہ تنظیم نے تقریب کے اہم مقصد کو ہی غارت کر دیا۔ انہوں نے قوم کے فائدے کو بالائے طاق رکھ کر اپنے مفاد کے پیچھے سارا ماحول خراب کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اب اگر یہ کوئی عام آدمی یا تنظیم ہوتی، تو شائد میں خود کو لاتعلق رکھتا، لیکن وہاں تو اساتذہ ہی ماحول کی بدمزگی کا سامان بنے۔ وہ اساتذہ جو دوسروں کو آداب سکھاتے ہیں اور اپنے طلبہ کی رہنمائی کرتے ہیں۔
جاتے جاتے بصد احترام ایک سوال پوچھنا چاہوں گا کہ اگر اس موقعہ پر مذکورہ اساتذہ سے تعلیم حاصل کرنے والے ان کے شاگرد موجود ہوتے، تو ان کے ذہن پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہوں گے؟
یہیں ناں کہ ہمیں امن و آشتی کا درس دینے والے گفتار کے غازی ہیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں