احسان علی خانکالم

گداگروں کی بہتات اور انتظامیہ کی خاموشی

گذشتہ روز گرین چوک کے قریب ایک کم سِن بچی میری جانب تیزی سے آئی۔ اس نے مجھ سے پیسے یا دوسرے الفاظ میں بھیک لینے پر اصرار کیا۔ بچی کے کپڑے میلے کچیلے تھے۔ پاؤں سے جوتا غائب (ایسا قصداً کیا جاتا ہے، تاکہ لوگوں کی ہمدردی حاصل ہو۔) مَیں نے بات کرنے کی کوشش کی، تو پتا چلا وہ غیرمقامی ہے۔
مذکورہ بچی پشتو ٹھیک طرح سے بول نہیں پا رہی تھی۔ مَیں نے بہت جاننے کی کوشش کی کہ اسے سوات کون لے کر آیا ہے؟ اس کا سربراہ کون ہے اور کیوں وہ اس چھوٹی سی عمر میں سرِ بازار یوں پھر رہی ہے؟ اس کی جانب سے کوئی ردِعمل نہ آیا، تو اسی وقت خیال آیا کہ یہ کام تو میرا نہیں ہے۔ یہ توضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری بنتی ہے۔
قارئین، بادی النظر میں یہ کوئی خاص مسئلہ نظر نہیں آتا، لیکن گہرائی میں جاکر دیکھیں، تو صورتِ حال خطرناک ہے۔ کانجو بائی پاس چوک سے لے کر مینگورہ کے آخری کونے تک ہر طرف غیرمقامی گداگربھیک مانگتے نظر آئیں گے۔ ٹریننگ ایسی کہ پیسے دیے بغیر آپ کی گلو خلاصی ممکن نہیں۔ ممکنہ طور پر اگر یہ گداگر مقامی ہوتے، تو اس بات کا امکان ہوتا کہ یہ کسی ضرورت یا مجبوری کے تحت بھیک مانگنے پر مجبور ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ ان کی اکثریت غیر مقامی ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ ایک منظم طریقے سے گداگری کا کاروبارکرنے سوات آئے ہوئے ہیں۔
اب اندازہ لگائیں، ایک سربراہ جس کے ماتحت پندرہ بچے ہوں، ہر بچہ روزانہ اوسطاً دو ہزار روپے کی بھیک اکٹھی کرتا ہو، تو یہ یومیہ تیس ہزار اور ماہانہ نو لاکھ بنتی ہے۔ یہ ایک اندازہ ہے، خدا کرے یہ غلط ثابت ہو! لیکن سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ تیزی سے پھیلتا یہ منظم گروہ آخر انتظامیہ کی نظر میں کیوں نہیں آرہا؟
سوات کے لوگوں نے دیکھا کہ کرش مافیا نے دریائے سوات کی شکل بگاڑ دی۔ انتظامیہ روز فیس بک کے ذریعہ عوام کو یہ باور کرانے میں مصروف رہتی ہے کہ کرش مافیا کے خلاف کارروائیاں ہورہی ہیں۔ پر نتیجہ صفر……! شاید یہ مافیااتنا مضبوط بن چکا ہے کہ اسے اب قانون کا خوف نہیں رہا۔ اب لگ رہا ہے کہ غیرمقامی گداگروں کا یہ مافیا دن بہ دن مضبوط بنتا جا رہا ہے۔
گذشتہ روز ایک خبر نظر سے گزری کہ ضلعی انتظامیہ نے عوامی تشویش پر ”کچھ غیر مقامی گداگروں“ کو ضلع بدر کیا ہے، لیکن یہ ایک رسمی کارروائی ثابت ہوئی۔ جس طرح کم عمر موٹرسائیکل سواروں کے خلاف ایک دو مہینے بعد اِک آدھ کارروائی ہوتی ہے۔ جیسے آپ کو یاد ہوگا کچھ عرصہ پہلے ہیلمٹ پہننا لازمی قرار دیا گیا تھا اور ”پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔“ ایسی کارروائیاں یا اقدامات ”موسمی“ یا ”رسمی“ کہلائے جاتے ہیں۔
قارئین! اگر ایک ٹریفک اہلکار اپنے ہاتھ کے اشارہ سے سیکڑوں گاڑیوں کو روک سکتا ہے، تو اس میں اس اہلکار کا انفرادی طور پر کوئی کردار نہیں۔ اس کے ہاتھ کا اشارہ دراصل ریاست کا اشارہ ہوتا ہے۔ اسی ریاستی رٹ کی وجہ سے عوام لاشعوری طور پر کسی بھی اہلکار کے اشارے پر اپنی گاڑیاں رواں رکھتے یا روکتے ہیں۔ اگر وہ ٹریفک اہلکار ڈیوٹی دینے کی بجائے تھڑے پر بیٹھ گر گپیں ہانکے، تو اس کا وہ طاقت ور اختیار جو ریاست نے اسے دیا ہوتا ہے، ضائع ہوکر بے معنی ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کسی بھی ادارے کا سرکاری ملازم خواہ وہ عہدے کے لحاظ سے کتنا ہی بڑا گریڈ کیوں نہ رکھتا ہو، اگراپنے اختیارات کا صحیح استعمال نہیں کرتا،تو اس کا مطلب ہے کہ ایک بہت بڑا سرکاری عہدہ یا ”اتھارٹی“بے کار بن کر رہ گئی ہے۔
ہم سے ایک غلطی ہوئی ہے۔ ہم نے ہر آنے والے کو ہار پہنا کر خوش آمدید کہا۔ ہر جانے والے کو ہار پہناکر رخصت کیا۔ ہم یہ ادراک نہ کرسکے کہ اگر کسی نے ابھی کوئی کارکردگی دکھائی ہی نہیں، تو اس کی آمد پر ہار پہنانے کا کیا جواز بنتا ہے؟ ڈیوٹی کے پہلے دن ہار پہنے شخص کو کارکردگی دکھانے کی ضرورت کیوں کر پیش آسکتی ہے، جب کہ اسے معلوم ہے کہ اس نے اسی طرح ہار پہنے ہی رخصت ہونا ہے! ہم نے ایک غلط روایت کی بنیاد ڈالی ہے۔ یہ روایت ختم کرنا ہوگی۔
کرش مافیا بہ دستور سرگرم ہے۔ گداگر اسی طرح پورے سوات میں پھیل کر منظم کاروبار کررہے ہیں۔ میرے جیسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں۔ اس پلڑے میں انتظامیہ کی طرف سے کچھ وزن ڈالا جائے، تاکہ توازن برقرار ہ سکے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں