ایج ایم کالامکالم

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

بقولِ منیر نیازی صاحب
ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کرنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو، اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
راقم بھی ہمیشہ دیر کردیتا ہے، جیسا کہ بیس نومبر کو ہونے والے ایک سیمینار کا وعدہ ایفا کرنے میں دیر کر دی۔ دراصل غیرسرکاری فلاحی اداروں ایف ایل آئی (فورم فار لینگویج انشٹیوز) اور جی سی ڈی پی (گاؤری کمیونٹی ڈیولپمنٹ پروگرام) نے بچوں کے عالمی دن کے موقعہ پر ایک سمینار کا انعقاد کیا تھا، جس میں علمائے کرام، صحافی برادری، ڈاکٹروں اور سماجی کارکنوں کے ساتھ راقم کو بھی شرکت کا شرف حاصل ہوا۔ یہ سیمینار پاکستان کے خوبصورت سیاحتی مقام کالام میں منعقد ہوا۔ دراصل بچوں کے حقوق اور ان کے فلاح و بہبود کے حوالے سے آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے یہ سیمینار انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ اس لیے شرکا نے عہد کیا تھا کہ اس بارے آگاہی میں بھرپور حصہ ڈالیں گے، مگر کیا کریں’’ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں‘‘ اور آج پورے بیس دن بعد قلم کو جنش دینے کا موقعہ ملا ہے۔
قارئینِ کرام! مجموعی طور پر وطن عزیز میں بچوں کے حقوق کس طرح پائے مال ہوتے ہیں اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں ڈھائی کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں جب کہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 25-A میں عوام کے ساتھ معاہدہ ہوا ہے کہ سولہ سال تک کے بچوں کی تعلیم حکومت وقت کی ذمہ داری ہوگی۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ ایک دوسرے کو سیاسی مات دینے کے لیے آرٹیکل 62, 63 پر پوری پارلیمنٹ کو سر پر اٹھایا جاتا ہے، غداری اور صادق و امین کی ان شقوں پردائر کردہ مقدمات سے سپریم کورٹ کو بھردیاگیا ہے، مگر مجال ہو کہ کسی نے ایک آدھ لفظ تعلیم کی شق کے حوالے سے بھی بولا ہو۔
سب سے بڑا سوال یہاں یہ سراٹھاتا ہے کہ اگر حکمران آپ کے بچوں سے کیے گئے بنیادی تعلیم کے وعدے سے ہی مکر جائے، تووہ صادق اور امین کیسے رہے؟ اور جب ملکی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی تعلیم کو ہی نہ مانے، تو کیا یہ غداری نہیں ہوگی؟
ایسے مسلسل دھوکا دہی اور مکر و فریب کے باعث صورت حال اب کچھ یوں ہے کہ ہمارے بچے دن بھر کوڑے کے ڈھیر سے رزق تلاشنے میں مصروف ہیں۔ چائے کا ڈھابا ہو، مستری خانہ ہو یا دیہاڑی مزدوری ہو’’چھوٹے، چھوٹے‘‘ کی آواز گونجتی رہتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک ان ناتواں کندھوں پر کتابوں کے بوجھ کو ہلکا کرنے کی ترکیبیں سوجھ رہے ہیں اور ہم ہیں کہ ان کے کندھوں پر منوں کے حساب سے بار لاد کر انہیں کمائی کا ذریعہ بناتے ہیں، جب کہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ ان سے ہونے والی اصل کمائی ان کی تعلیم کے بعد ہی ہوتی ہے، جو نہ صرف ایک خاندان کی کمائی ہوگی بلکہ پورے ملک کی کمائی اور ترقی ہوگی۔
چلیں، اگر اسے سوات کوہستان کی طرح پاکستان کے دیگر دیہاتوں میں بھی شعور وآگاہی کی کمی تصور کرتے ہیں کہ جہاں بچوں سے مشقت لی جاتی ہے، تو یہ صورت حال تو پارلیمنٹ کے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ آپ روز ٹریفک اشاروں پر گاڑی کے شیشوں پر صفائی کا کپڑا پھیرتے ہوئے بچوں کو دیکھتے ہوں گے۔ آپ کیچڑ میں لت پت پھٹے پرانے بدبودار کپڑوں میں ملبوس بچوں اور بچیوں کو ناکارہ اشیا سمیٹتے ہوئے دیکھتے ہوں گے۔ گاڑی مرمت کرتے ہوئے آپ خود بار بار ’’چھوٹے، چھوٹے‘‘ کی آواز لگاتے ہوں گے، مگر کیا کریں اس ملک کو شائد مٹھی بھر لوگوں نے اپنی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔ جن کے بچے باہر ملکوں میں پڑھتے ہیں اور پھر پاکستان میں تو ان کے قد کھاٹ کی نوکریاں بھی نہیں ہوتیں۔ اس لیے دوسرے ممالک میں خوب کماتے بھی ہیں۔ رہی بات عام آدمی کی تو ان کی دہاڑی مزدوری جانے اور ان کے بچے جانیں۔
لیکن قارئین، یہ نظام کب تک ایسا چلے گا؟ اور اس نظام کی تبدیلی کا ذمہ دار کون ہے؟ یقیناًمیں اور آپ ، جب کہ میں بھی دیرکردیتا ہوں اور آپ بھی دیر ہی کرتے ہیں، تو پھر ان بچوں کا اللہ ہی حافظ! اور اگر ہمت ہے کچھ کردکھانے کا، تو بقولِ شاعر
شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
اس لیے آئیے، ان بچوں کے حقوق کی خاطر اپنا اپنا حصہ ڈال دیتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں