اکرام اللہ عارفکالم

زمانہ ہے گزرا جا رہا ہے

ایک اور سال بیتنے کو آگیا، بس کل ہی یہ سال تمام ہوجائے گا۔ پرسوں نئے سال کا سورج طلوع ہوگا (اِن شااللہ)۔ کل نصف شب کو دنیا بھر میں لوگوں کی اکثریت نئے سال کا جشن منائے گی۔ نہیں معلوم شراب وکباب کا پیمانہ کیا ہوگا؟ کچھ لوگ مگر آنسو بھی بہائیں گے۔ کیوں کہ خوشی اور غمی اس زندگی کے لازمی اجزا ہیں۔ کل شام کو کہیں تنہائی میں اگرہم چند لمحے گزار لیں، تو یقینا ہم سوچ کرجان سکتے ہیں کہ اللہ کی عطاکردہ زندگی سے ایک اور سال ختم ہوگیا۔ آسان لفظوں میں یہ کہ موت تک جو مہلت ہمیں ملی ہے، اس میں کامل ایک سال کم ہوگیا۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ اس مرحلے پر خوش ہونا چاہیے یا افسردہ؟مگر ایک بات کرنے کی جسارت ضرور کروں گا کہ کل شام جب ہم تنہائی میں بیٹھ کر اس پورے سال کے حالات و واقعات کی یادوں میں سفر کریں گے، تو یہ بھی ضرور سوچنا چاہیے کہ ان بارہ مہینوں میں میری ذات میں کیا بہتری آئی ہے، اور کیا کمی رہ گئی ہے؟ اپنے گھر، خاندان اور دیگرانسانوں سے میرا تعلق بہتررہا یا خراب؟اس پورے سال میں فقط سماج کی درستی کے لیے چلتارہا، یا اپنی ذات کی بیماریوں کا بھی علاج کرتا رہا؟ ہماری ذات کی یہ بیماریاں روحانی، جسمانی، نفسیاتی اور سماجی ہوسکتی ہیں۔ یقینا آخر میں ہم یہ فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں گے کہ سال کے اس آخری دن مجھے خوشی منانی چاہیے، یا افسوس کرنا چاہیے کہ کتناقیمتی وقت ہاتھ سے نکل گیا، اور ایک سال کیا بیت گیا بلکہ ایک زمانہ گزرگیا۔ عمرکا ایک پڑاؤ سر کیا اور زندگی کا ایک اہم حصہ ختم ہوگیا، جس کے بارے میں اقبالؔ نے کیا خوب فرمایا تھا:
زندگانی جس کوکہتے ہیں فراموشی ہے یہ
خواب ہے، غفلت ہے،سرمستی ہے،بیہوشی ہے یہ
اب آج کے لیے اور کیا لکھنا ہے، بس زندگی، عمر اورزمانے کے متعلق چند اشعار پیشِ خدمت ہیں کہ میں سالِ رفتہ کو شعرا کی زباں میں الوداع کہنا چاہتا ہوں۔
جلیل مانکپوری کے بقول:
زمانہ ہے کہ گزرا جا رہا ہے
یہ دریا ہے کہ بہتا جا رہا ہے
زمانے پرہنسے کوئی کہ روئے
جو ہونا ہے سو ہوتا جا رہا ہے
قدیر لکھنوی کے بقول:
نہ دو قدم بھی زمانہ چلا ہمارے ساتھ
ہمیں کوساتھ میں چلنا پڑا زمانے کے
بقولِ فانیؔ:
اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے،خواب ہے دیوانے کا
بقولِ ذوقؔ:
یہ اقامت ہمیں پیغامِ سفر دیتی ہے
زندگی موت کے آنے کی خبر دیتی ہے
حفیظ جالندھری کے بقول:
عبادت کی لذت نہ جی بھر کے پینا
یہ کیا زندگی ہے،نہ مرنا نہ جینا
سوداؔ کے بقول:
فکرِ معاش، عشقِ بتاں، یادِ رفتگاں
اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کِیا کرے؟
بقولِ فانیؔ
رابطہئ جسم و جاں، دیکھیے کب تک رہے
زیست کا ہم پرگماں، دیکھیے کب تک رہے
اثرؔ لکھنوی کے بقول:
کچھ دن کی اور کشمکشِ زیست ہے اثرؔ
اچھی بری، گزرنی تھی جیسی گزر گئی
امینؔ کے بقول:
عمر کٹنے کو کٹی، پر کیا خواری میں کٹی
دن کٹافریاد میں او رات زاری میں کٹی
غالبؔ کے بقول:
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالبؔ
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
ایک نامعلوم شاعر کا شعر ملاحظہ ہو:
کوئی گریاں قریبِ تربت ہے
زندگی پھر تیری ضرورت ہے
بقولِ سرورؔ
چاندنی کس کے تبسم کی در آئی اس میں
زندگی پیار کے قابل کبھی ایسی تو نہ تھی
قارئین، نمونے کے ان چند اشعار میں کوئی نہ کوئی شعر ضرور کسی نہ کسی کی زندگی کاترجمان ہوگا۔ اللہ کرے آنے والا سال ہم سب کے لیے جانے والے سال سے بہتر ہو، آمین!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں