اکرام اللہ عارفکالم

”خصی کرنا“ ہی مسئلے کا حل ہے

جمہ کے دن یہ الفاظ لکھنے تک حقیقی ملزمان آزاد تھے، جب کہ متاثرہ خاتون اپنے بچوں کے سامنے حیران و پریشان بیٹھی تھی۔
جی ہاں، آپ درست سمجھے یہ گجرپورہ لاہور کا واقعہ ہے جہاں ایک خاتون موٹروے پر لاہور سے گجرانوالہ کے لیے چل پڑی۔ راستے میں پیٹرول ختم ہوا، تو کھڑی ہوگئی۔ پھر انسانی شکل میں دو درندوں نے حملہ کرکے بچوں سے ذرا دور لے جاکے اسے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ طبی معائنہ میں زیادتی ثابت ہوچکی ہے۔ اب یہ سوالات ضمنی ہیں کہ ایک عورت رات کی تاریکی میں آخر کیوں گھر سے نکلی؟ پھر براہِ راست پولیس کے بجائے اپنے ایک رشتہ دار کو فون کرنا بھی قابلِ تفتیش معاملہ ہے اور ایسے اور بھی بہت سارے سوالات ہیں جو یقینا تفتیش کاروں کے ذہن میں ہوں گے۔ اہم معاملہ لیکن یہ ہے کہ ایک عورت سے مین شاہراہ پر زیادتی کاواقعہ رونما ہوا۔
کسی زمانے میں بھارتی شہر ممبئی کو ”ریپ کیپٹل“ کہا جاتا تھا۔ اگر چہ ہندوستان بھرمیں جبری جنسی درندگی کے یہ واقعات اب بھی ہو رہے ہیں۔ ابھی پچھلے ہفتے ہی ہندوستان میں ایک ”پچاسی سالہ“ بوڑھی عورت کا گینگ ریپ کیا گیا ہے۔ جی ہاں، پچاسی سالہ! لیکن انسان جب حیوان بن جائے، تو پھر ایسے ہی واقعات جنم لیتے ہیں۔ کبھی کبھی تو سوچتاہوں کہ شائد ”ڈارون“ اپنے نظریے میں بالکل درست تھا کہ ”انسان ابتدائی طور پر جانوروں کی طرح چلتا پھرتا تھا یعنی کہ جانور ہی تھا۔“ پاکستان جو کہ ایک اسلامی جمہوریہ ہے، میں اس قسم کے واقعات جھنجھوڑنے والے ہیں۔ ہرگلی میں مسجد، مدرسہ اور ہر جگہ دعوتِ تبلیغ کے حلقے موجود ہیں۔ خیرات کرنے میں بھی پاکستانی دنیا بھر میں مشہورہیں، تو پھر اس قسم کی قبیح حرکات کیوں کر ہوتی ہیں؟
کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اس طرح تو ہر ملک میں ہوتاہے، لہٰذا یہ کوئی خاص بات نہیں۔ یہ کتنی شرمناک دلیل ہے۔ اس قسم کے معاملات میں اگر ملزمان کو قرار واقعی سزا نہ دی جائے، تو پھر اس معاشرے کا کیا بنے گا؟ کیوں کہ پہلے ہی سے معاملات کچھ زیادہ اچھے نہیں۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے ایک رپورٹ جاری کی گئی جس کے مطابق جن ملکوں میں لوگ فحش فلموں کو ذوق و شوق سے دیکھتے ہیں، ان میں سرِ فہرست دس ممالک میں سے 9 اسلامی ہیں۔ اب ان 9 اسلامی ملکوں میں ہمارا نمبر کون سا ہوگا؟ یہ کوئی مشکل سوال نہیں۔ البتہ ان سرفہرست دس ممالک میں جو ایک غیر مسلم ملک ہے، وہ ہمارا پڑوسی ”ہندوستان“ ہی ہے۔ اب جہاں فحش فلمیں دیکھنا لوگوں کاشوق بن جائے، تو وہاں کوئی ”پچاسی سالہ بوڑھی خاتون“ کی عزت کولوٹے یا بچوں کے ساتھ سفر کرنے والی ایک مسافر عورت کی، بات اچھنبے والی نہیں!
پاکستان میں کسی شادی شدہ عورت کی اس طرح اجتماعی آبرو ریزی کا یہ پہلا رپورٹ شدہ واقعہ ہے، لیکن اس سے پہلے کم عمر بچوں اور بچیوں کے واقعات بہت ہوئے اور ہو بھی رہے ہیں۔ اب بھی کراچی میں ایک کم سن بچی کو اجتماعی زیادتی کے بعد جلانے کا کیس چل رہا ہے۔
قصور کی زینب بچی کا مشہور کیس سب کو یاد ہوگا۔ اس کے بعد شہرِ اقتدار اسلام آباد کے مضافات میں ننھی فرشتہ بچی کے ساتھ زیادتی کاکیس بھی سب کو یاد ہوگا۔ اس قبیل کے اتنے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ لکھتے لکھتے ایک ضخیم کتاب مرتب ہوسکتی ہے۔
ہمارے اپنے سوات میں اس طرح کے کتنے واقعات ہوتے ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوتے، یا دیر پائین میں ڈی سی آفس کا ایک ملزم جوآج کل اسی طرح کے ایک کیس میں جیل بھگت رہا ہے۔
فحش فلمیں دیکھنے کے ذوق نے ہمارے معاشرے کو حیوانوں کا معاشرہ بنادیا ہے۔ ہم توقع رکھتے تھے کہ زینب، فرشتہ اوردیگر کم سن بچوں اور بچیوں سے زیادتی کے بعد کوئی بہترین قانون سازی کی جائے گی، لیکن یہ توقع عبث رہی۔ کیوں کہ پاکستان میں پارلیمان اب بھی بے حس لوگوں کا ایک ”شغل خانہ“ ہے، لہٰذا ایک غیر مؤثر قانون تو بن گیا ہے، لیکن نافذ ابھی تک نہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے واقعات میں کمی نہیں آرہی۔
لاہور کا یہ حالیہ کیس ریاست و حکومت کے لیے چیلنج ہے۔ ساتھ ساتھ پورے معاشرے کے لیے یہ باعث شرم بھی ہے۔ ذاتی طور پر تو بہت دل کرتاہے کہ ایسے بدبختوں کو عمر بھر کے لیے نشانِ عبرت بنایاجائے، اور وہ یوں کہ ایسے لوگوں کو پھانسی پر بھی نہیں چڑھانا چاہیے، بلکہ انہیں ”خصی“کرنا چاہیے، تاکہ ان کی نام نہاد مردانگی ان کے لیے باعثِ شرم بن جائے۔
معاشرے کو اس قبیل کے لوگوں سے قطع تعلق کرنا چاہیے، تاکہ اس ناسورکا خاتمہ ہوسکے۔ اس طرح اگر حکومت فحش فلموں کا راستہ نہیں روک سکتی، تو ایسے مجرموں کو ”خصی“ توکرسکتی ہے، تاکہ یہ نامراد برائے نام مرد بھی رہیں اور ان سے دوسروں کی عزتیں بھی محفوظ رہیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں