ڈاکٹر سنگین سیالکالم

سوات کی زخمی تصویر

سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر، آنکھوں میں اشک بھرے اور دلوں میں بہت سے ارمان لیے لوگ سوات سے روانہ ہوئے۔ سب کو یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ جانے کب واپسی ہوگی؟ جانے کبھی واپسی ہوگی بھی یا نہیں اور واپس آئیں گے، تو کیا سب کچھ ویسا ہی ہوگا جیسا کہ ہم چھوڑ کر جارہے ہیں؟ کسی حد تک سب کو اندازہ تھا، لیکن اندیشوں کا اظہار کرنے سے ڈر لگتا تھا کہ کہیں سچ ثابت نہ ہو۔ ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق، بھرا پرا گھر،مال مویشی، گندم کی کھڑی فصلیں، پھلوں سے لدے باغ، آلوچے اور آلو بخارے کے پیڑ اور باغات پیچھے چھوڑے جا رہا تھا۔ یہ حسرت تھی کہ کاش انہیں سمیٹنے کی مہلت یا موقع میسر آگیا ہوتا۔
نقلِ مکانی کرنے والوں کے چہروں پر بے شمار کہانیاں تھیں۔ واقعات اور حادثوں کی یادیں تھیں۔ کچھ کہانیاں وہ ساتھ لے کر چلے تھے۔ کچھ نے ان رستوں میں ہی جنم لیا۔ کچھ کردار موجود رہے۔ کچھ وقت کے گرد اور سفر کی صعوبتوں کی نذر ہوگئے۔ بچی رہی تو ان کی تصویریں، واقعات کے دھندلے مناظر اور ان کی دھندلی تعبیریں، لیکن کوئی منظر واضح نہ تھا۔ کوئی تصویر، کوئی خاکہ اُجلا نہ تھا۔ ان میں دکھائی دیتے چہروں کے خدوخال نمایاں نہ تھے۔ ماتھے پر گہری شکنیں، آنکھوں میں خوف اور بے یقینی، آوازیں آنسوؤں میں تر، گلے رندھے ہوئے اور آہ و بکا، کوئی ملول اور غمزدہ پیدل ہی چلا جا رہا ہے، تو کوئی گاڑی کی نشست سے ٹیک لگائے سسک رہا ہے۔
اب اس وقت کی یادیں بھی چند تصویروں کی صورت باقی بچی ہیں، جیسے ایک بوڑھی خاتون کی تصویر، جس نے اپنے گھر سے سات جنازے اٹھتے دیکھے، جن میں ایک جوان بیٹا بھی تھا، جو پانی پانی پکار کر سدھار گیا۔ وہ نہیں مری، شاید ان سب پر ماتم جو کرنا تھا۔ ماتم بھی کچھ ایسا جو ختم ہونے کا نام ہی نہ لے۔ وہ بھی اپنا گھر، گھر تو خیر کیا تھا، یادوں کا مدفن تھا اور اس سے منسلک وہ قبرستان جو کبھی باغیچہ ہوا کرتا تھا، میں اس کے سات پیارے دفن تھے، جہاں وہ ہرصبح جاکر تلاوت کرتی، جیسے کبھی بھرے پرے برآمدے میں کرتی تھی۔ وہ یہ سب پیچھے چھوڑ کر چل پڑی تھی۔ جہاں لوگوں کو اپنے آباد گھروں کی فکر تھی۔ اسے اپنی خانماں بربادی پیچھے چھوڑے جانے کا دکھ تھا۔ وہ واپس جاکر ان قبروں کے سرہانے بیٹھنا چاہتی تھی، جہاں وہ بلک بلک کر روتی رہی ہے، لیکن کوئی ہاتھ بڑھ کر اس کے آنسو پونچھنے کو نہیں بڑھتا تھا۔
انہی یادوں میں ابھرتی ایک تصویر، ایک بوڑھے باپ کی بھی ہے، جو بہت دھندلی، بہت خراب سی ہے، لیکن ہے تو ہے، اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے، نظر بچانے نہیں دیتی، اس کا ایک بیٹا تھا یا ہے شاید، کچھ نہیں کہہ سکتے، لوگوں کی چیزیں گم ہوجاتی ہیں۔ یہاں پورے کے پورے انسان گم ہوگئے ہیں۔کسی کو کہیں بھی نہیں مل رہے۔ ملتے ہیں تو خوابوں میں، خیالوں میں، دوسرا بیٹا گرآئے ہوئے گھر کا ملبہ صاف کرتے کرتے اسی میں مل گیا، لیکن فکر نہ کریں، بوڑھا سلامت ہے۔ بس یادداشت تھوڑی ادھر ادھر ہوگئی ہیں۔ دماغ تھوڑا کھسک گیا ہے۔ اتنا یاد ہے کہ پہلے ہم سب تھے،اب صرف میں ہوں، شاید……!
ان سب میں وہ تصویریں کسی قدر دکھنے میں واضح تھیں، جو بول بھی نہیں سکتی تھیں۔ بس خاموشی سے سب سہتی آرہی تھیں۔اصل میں وہ چیخ رہی تھیں، لیکن سماعتیں ان کی فریکوینسی سے ہم آہنگ نہ تھیں۔ سو سنائی نہیں دیتی تھیں، یا شاید نقار خانہ تھا، جہاں ایک سی آوازیں اس شدت سے بلند تھیں کہ الگ نہیں کی جاسکتی تھیں۔ اس لیے سمجھ نہیں آتی تھیں۔ سب کے غم چوں کہ یکساں تھے، تو چیخ و پکار بھی ایک جیسی ہی تھی۔ جیسے قیامت کی منظر کشی کی جاتی ہے کہ نفسا نفسی کا عالم ہوگا، ہر کوئی اس قدر اپنی فکر میں محو ہوگا کہ اردگرد سے بیگانہ ہوگا۔ یہ پل بھی کچھ ایسے ہی تھے۔ ایسا ہی کچھ ہوتا ہوگا قیامت میں بھی شاید……! سب کچھ درہم برہم،ہر دیوار چھلنی،ہر دل خون کے آنسو روتا ہوا، ہر آنکھ اشکبار، سب اپنے ہی فکر میں مگن، چاہ کر بھی کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔
جو نکل سکتے تھے وہ نکل گئے۔ ہم جیسے کچھ پیچھے رہ گئے۔ چاہتے ہوئے بھی نہ نکل سکے۔ شاید اب بہت دیر ہوچکی تھی، یاشاید ایسے دن بھی دیکھنے تھے، دن رات خوف و اندیشوں میں گھرے رہتے کہ کل جانے کیا ہوگا، وقت جیسے تھم گیا تھا۔
بجلی، فون کے سگنلز اور سارے دوست، سب چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ کہیں دور، کچھ دن بعد ”یو فون سگنل“ آگیا، تو افتخارعالم کی کال بھی آنی شروع ہوگئی۔ پہلے بہت انہماک سے اپنے گھر کا پوچھتے، پھر کہتے: ”اور سناؤ یار، تم کیسے ہو؟“ ہم بھی اس کا جی رکھنے کے لیے ہنس کر کہہ دیتے،”اچھا نہیں کیا جو چلے گئے،یہاں تو مزے ہی مزے ہیں!“ اور اتنے میں توپوں کی گن گرج شروع ہوجاتی اور ہم فون بند کرلیتے۔
ایک وہ بھی تو گاؤں میں تھا،جو سب سے مختلف تھا، جسے سب دیوانہ کہتے تھے۔ وہ اپنے حال میں مست رہتا۔ کبھی ادھرتو کبھی ادھر۔ اس کی تو جیسے عید ہوگئی تھی۔ کائی بھی نہیں تھا اسے روکنے ٹوکنے والا، لیکن ایک مسئلہ تھا۔ اس بیچارے کو کرفیو کا پتا نہیں تھا۔ اسی بے خبری میں سپاہیوں کے ہاتھوں لگا،اور کرفیو کی خلاف ورزی پر خوب درگت بنی۔ ایک رات گذارنے کے بعد جب واپس آیا اور کوئی تبدیلی تو خیر کیا آتی۔ سپاہیوں کا نام سن کر گھر کی طرف دوڑتا اور گھنٹوں دبکا رہتا۔
لوگ واپس آئے۔ دیکھا تو کچھ بھی ٹھیک نہیں تھا۔ کوئی بھی گھر ایسا نہیں جو پرانی حالت میں ہو۔ کھیتوں میں گولے بوئے ہوئے۔ آج گیارہ سال بعد بھی کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ نکلتا ہے اور لوگ ڈرے سہمے ان کو چھوئے بغیر محکمے والوں کو بلا کر نکلواتے ہیں۔ مجال ہے کسی کی جو ایک بھی چیز ادھر ادھر ہوجائے۔ ایسے نہ جانے کتنے منظرہیں،ٹوٹے پھوٹے، خراب حال،دھندلے،بوسیدہ۔ ایسی ہزاروں تصویریں آنکھوں میں لیے لوگ یہاں جی رہے ہیں، اور خوب جی رہے ہیں۔باہر کے لوگوں کو یہ تصویریں نہیں دکھائی دے رہیں۔ ان کو جو دکھائی دیتا ہے وہ ایک صاف سلیٹ ہے، بے داغ۔
کبھی یہ منظر، یہ تصویریں ہماری یادداشتوں سے محو ہوں گی۔
شاید کبھی نہیں!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں