فضل ربی راہیکالم

اہلِ سوات ہوشیار رہیں!

سوات جب ایک الگ ریاست کی حیثیت سے قائم تھا، تو اُس وقت امن و امان کی صورتِ حال نہایت قابلِ رشک تھی۔ سوات میں باہر سے آنے والے لوگوں کو مقامی ضمانت پر رہائش کی اجازت دی جاتی تھی۔ یہاں غیرسواتیوں پر عام حالات میں جائیداد خریدنے پر پابندی عائد تھی۔ سیاحوں کو سوات آنے پر خوش آمدید کہاجاتا تھا اور ان کو نہ صرف ریاستی طور پر تحفظ حاصل تھا بلکہ مقامی لوگ بھی ان کو عزت اور احترام دیتے تھے۔
ریاستِ سوات جب ایک ضلع کی حیثیت سے پاکستان میں مدغم ہوئی، تو اس کے بعد بھی عام لوگ سیاحوں کے تحفظ اور ان کے عزت و احترام کو مقدم سمجھتے تھے۔ تاہم جب سوات میں ”طالبانائزیشن“ تخلیق کی گئی اور اس کے خاتمہ کے لیے فوجی آپریشنوں کا سلسلہ شروع کیا گیا جس کے دوران اہلِ سوات کو آئی ڈی پیز بناکر اپنے ہی ملک میں دربہ در کیا گیا، تو اس کے نتیجے میں کچھ مسائل ایسے پیدا ہوگئے جن کی وجہ سے اب سوات وہ پرانا سوات نہیں رہا ہے۔ سوات کے لوگوں کو جب آئی ڈی پیز بنایا گیا، تو اس دوران انھیں اے ٹی ایم کارڈز اور مختلف فوڈ پیکیجز کے ذریعے قطاروں میں کھڑا کرکے ہاتھ پھیلانے کا خوگر بنایا گیا اور یوں ان کی عزتِ نفس کو مجروح کیا گیا۔ تین ماہ کے بعد جب وہ اپنے سوات واپس لوٹے، تو چیک پوسٹوں اور سرچ اینڈ کلیئر آپریشنوں کی آڑ میں انھیں رہی سہی عزتِ نفس سے بھی دانستہ طور پر محروم کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ اہلِ سوات چوں کہ ملک کے مختلف علاقوں میں آئی ڈی پیز کے طور پر سرکاری اسکولوں، کیمپوں، کرایہ کے گھروں اور عزیز و اقارب کے علاوہ مہمان دوست لوگوں کے حجروں میں رہے تھے، اس لیے ان علاقوں اور مقامات کی اچھی بری سماجی عادات و اطور بھی ان میں گھر کر گئے اور جب وہ سوات واپس لوٹے، تو ان کے رویوں میں کافی تبدیلیاں آچکی تھیں اور بدقسمتی سے یہ تبدیلیاں مثبت سے زیادہ منفی تھیں۔
مقامی طور پر سوات میں طالبانائزیشن کی وجہ سے جانی و مالی نقصانات یوں تو بے شمار ہیں لیکن اس کے نتیجے میں اہلِ سوات کا جو اصل نقصان ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ ان کی صدیوں سے قائم قابلِ رشک روایات کا خاتمہ ہوا اور یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بعض ریاستی اداروں کے ذریعے کرایا گیا۔
سوات میں فوجی چھاؤنی کے قیام اور امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہونے کے بعد ایک بڑی تبدیلی یہ دیکھنے میں آئی کہ سوات میں بیرونِ سوات سے عام و خاص لوگوں کی آمد کا ایک غیرمعمولی سلسلہ شروع ہوا۔ اس میں خیبر پختون کے علاوہ خصوصی طور پر پنجاب سے لوگ جس تعداد میں آنا شروع ہوگئے ہیں، اس سے یوں لگتا ہے جیسے آئندہ دس سالوں میں سوات کے اصل لوگ اقلیت بن کر رہ جائیں گے۔ پنجاب کے لوگوں نے سوات میں ہوٹلنگ، ریسٹورنٹس، بیکریوں اور دیگر چھوٹے موٹے کاروباروں پر قبضہ جمانا شروع کیا ہے۔ اس معاملے میں بعض ”قوتوں“ کی طرف سے باہر سے آنے والے لوگوں کی باقاعدہ حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے۔ پختون اور خصوصاً سوات کے یوسف زئی پختون بنیادی طور پر سُست، سادہ، بے پروا، پُرامن، مہمان نواز، نرم خو اور سوات آنے والے سیاحوں کا عزت اور احترام کرنے والے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب شدید گرمیوں میں سوات میں آنے والے سیاحوں کو ہوٹلوں میں جگہ نہ ملتی، تو مقامی لوگ انھیں اپنے حجروں اور مہمان خانوں میں ٹھہراتے تھے اور سیاح جہاں چاہتے وہاں ٹینٹ لگا کر رات بسر کرتے تھے لیکن انھیں ہر طرح کا تحفظ حاصل ہوتا۔ ہوٹلوں میں کرائے اور ریستورانوں میں خور و نوش کی قیمتیں مناسب بلکہ کسی حد تک سستی ہوتی تھیں لیکن اب سوات میں ہوٹلنگ کے شعبے سے زیادہ تر پنجاب سے آنے والے لوگ وابستہ ہیں۔ یہ لوگ بہت پروفیشنل ہیں اور سیاحتی سیزن میں زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنے میں بہت تیز ہیں۔ اس لیے انھوں نے ہوٹلوں کے کرائے بڑھانا شروع کیے اور جن ریستورانوں میں سیاحوں کے لیے پہلے مناسب قیمت پر خور و نوش کی اشیا دست یاب ہوتی تھیں، اب ان کے نرخ آسمان سے باتیں کرنے لگے ہیں۔ پنجاب سے آنے والے اہلِ وطن ہمارے لیے نہایت قابلِ احترام ہیں اور انھیں پاکستانیوں کی حیثیت سے حق حاصل ہے کہ وہ سوات آئیں، یہاں مستقل رہائش اختیار کریں اور کاروبار کریں لیکن انھیں یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ناجائز مہنگائی کی صورت میں سوات کی بدنامی کا باعث بنیں۔
مندرجہ بالا سطور میں، مَیں نے سوات کے مثالی امن و امان کا تذکرہ کیا ہے لیکن اب سوات میں سیاحوں کے لیے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہونے لگا ہے۔ گذشتہ دنوں ملم جبہ اور بحرین میں سیاحوں کو لوٹنے کا واقعہ مزید بدامنیوں اور لوٹ مار کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ جس طرح سوات میں شورش کے دوران لوگوں کے گلے کاٹے گئے تھے اور اس سے عالمی سطح پر یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ سوات پر نہایت ”وحشی قسم کے طالبان“ نے قبضہ کر رکھا ہے لیکن حقیقت میں یہ سب کچھ ”نامعلوم“ جب کہ سب کو معلوم قوتوں کے ذریعے کرایا جا رہا تھا، ورنہ سوات کے لوگ تو کسی کا گلہ کاٹنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اب سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے سیاحوں کو لوٹنے والے جو دو افراد موٹر سائیکل پر سوار نظر آ رہے ہیں، یہ کسی بھی طور پر مقامی نہیں۔ ان کی شکل و شباہت سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خیبر پختون خوا سے بھی تعلق رکھنے والے لوگ نہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے اس طرح کے ناخوش گوار واقعات کے ذریعے کسی خاص مقصد کے تحت سوات میں سیاحوں کے لیے خوف و ہراس پھیلانا مقصود ہو اور سوات کی سیاحت کو دانستہ طور پر نقصان پہنچانے کا مکروہ منصوبہ بنایا جا رہا ہو۔
اہلِ سوات کو اب اپنی روایتی کاہلی اور بے پروائی سے باہر نکلنا ہوگا۔ آنے والے وقت میں سوات اہلِ سوات کے لیے غیرمحفوظ بننے جا رہا ہے۔ مینگورہ، ملم جبہ، میاں دم، مدین، بحرین، کالام اور اس کے قرب و جوار کی خوب صورت وادیوں کے مقامی لوگوں کو سوچنا ہوگا کہ وہ اپنی زمینوں کو جس رفتار سے بیرونِ سوات لوگوں کے ہاتھوں فروخت کر رہے ہیں، مستقبل میں اس کا نتیجہ ان کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوگا۔ بہتر یہ ہے کہ وہ اپنی جائیدادوں میں خود ہوٹل اور ریستوران بنائیں اور اگر ان کے پاس اس مقصد کے لیے وسائل نہیں ہیں، تو انھیں اپنی زمینیں ان ہی مقاصد کے لیے بیرونِ سوات آنے والے لوگوں کو بیچنے کی بہ جائے انھیں لیز پر دیں۔ لیز سے ان کی زمینیں ان کے پاس رہیں گی اور ان سے انھیں ہر ماہ کرایہ یا شراکت کی مد میں ایک معقول رقم بھی ملتی رہے گی۔
سوات کی سول سائٹی کو بیرونِ سوات آنے والے لوگوں پر کڑی نظر رکھنی چاہیے اور کسی بھی مشکوک شخص کو کرایہ پر بھی کوئی رہائش نہیں دینی چاہیے اور ایسے لوگوں کو مقامی انتظامیہ کے نوٹس میں لانا چاہیے۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ سوات کے لوگوں میں یہ شعور اُجاگر کیا جائے کہ وہ کسی ایسی صورتِ حال کو پنپنے نہ دیں جس کے نتیجے میں مستقبل میں وہ اقلیت بن کر اپنی ہی جنم بھومی میں بے بس اور بے اختیار ہوکر رہ جائیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں