فضل ربی راہیکالم

رواج نامۂ سوات

زیرِ تبصرہ کتاب ’’رواج نامۂ سوات‘‘ حکم رانانِ ریاستِ سوات کے احکامات، دفتری معاملات، عدالتی فیصلہ جات اور مختلف علاقوں کے لیے بنائے گئے قوانین و ضوابط پر مشتمل مجموعہ ہے جسے اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر کے آفس کے سپرنٹنڈنٹ غلام حبیب خان نے کتابی صورت میں مرتب کیا تھا۔
اس کتاب میں سوات کی سماجی زندگی کے ہر شعبے کے خط و خال نظر آتے ہیں۔ اُس دور میں عام طور پر لوگ کس قسم کے جرائم کرتے تھے، ان کے تنازعات کی نوعیت کیا ہوتی تھی اور وہ کس قسم کے جھگڑوں میں ملوث ہوتے اور آپس میں کیسی دشمنیاں پالتے تھے؟ یہ سب کچھ اس کتاب میں لکھے گئے مقدموں اور کیے گئے فیصلوں کی روشنی میں بہ خوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ بادشاہ صاحب کے دور میں جو فیصلے کیے جاتے تھے، ان کا تحریری ریکارڈ موجود نہیں لیکن جب والئی سوات نے ریاست کی باگ ڈور سنبھالی، تو انھوں نے عدالتی اور دفتری معاملات منظم طریقے سے ریکارڈ کرانا شروع کیے اوران کے ذاتی احکامات، مقامی رواج، علاقے کی روایات اور شریعت کے مطابق جو فیصلے کیے جاتے، ان کو تحریری شکل میں رجسٹروں میں محفوظ کیا جاتا تھا۔ سوات میں جب ضلعی انتظامیہ وجود میں لائی گئی، تو ابتدا میں یہاں پاکستان کے قوانین پوری طرح نافذ نہیں تھے اور بیش تر تنازعوں اور مقدموں کے فیصلوں میں سابق ریاستِ سوات کے انہی قوانین کی ضرورت پڑتی تھی اور فیصلہ کرنے میں متعلقہ حکام کو ان سے مدد اور رہنمائی حاصل کرنا ہوتی تھی۔ اس لیے رواج نامۂ سوات مرتب کرنے کی ضرورت پڑگئی تھی۔
موجودہ کتاب ’’رواج نامۂ سوات‘‘ ریاستی دور کی ایک اہم تاریخی اور قانونی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ سوات کے ریاستی دور کے ان فرامین اور فیصلہ جات سے اس دور کی معاشرتی زندگی کے مخصوص طور طریقے اور ہر شعبے میں موجود خوبیوں اور خامیوں کا ایک منظم تصور سامنے آتا ہے اور ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حکمرانانِ ریاستِ سوات اور ان کے زیرِنگرانی دیگر متعلقہ سرکاری حکام کس تدبر اور فراست سے مختلف مقدمات اور تنازعات کے فیصلے صادر کرتے تھے۔ اس دور کی ایک خوبی یہ تھی کہ حکم رانِ سوات کا فیصلہ اٹل ہوتا تھا اور وہ جو قوانین نافذ کرتے، ان پر نہایت سختی سے عمل درآمد ہوتا تھا۔
اس کتاب میں موجود فیصلے اور قوانین ایک بھرپور سماجی زندگی کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس کتاب کے مندرجات مہذب زندگی کا ایک ایسا دستور العمل سامنے لاتے ہیں جس میں انسانی زندگی میں پیش آنے والے قریباً ہر طرح کے تنازعات، جرائم، مقدمات اور معاشرتی اختلافات کا احاطہ کیا گیا ہے اور ان کے بارے میں عدالتی فیصلے اور ریاستی فرامین تحریر کیے گئے ہیں۔ اس میں فوج داری اور دیوانی دونوں قسم کے مقدمات موجود ہیں۔ بعض مقدمات اور جرائم ایسے ہیں جن کے فیصلے حیران کن حد تک جدید ریاستی قوانین کے مظہر ہیں۔ ریاستی دور میں کسی مقدمے اور تنازعے کی اہمیت اور حساسیت کو پیشِ نظر رکھ کر سزاؤں اور جرمانوں کا فیصلہ کیا جاتا تھا۔ مثلاً بعض جرائم میں مرتکب شخص جب جرمانہ ادا کرتا یا قید کاٹتا، تو اسے علاقے کی سابقہ روایات کے مطابق علاقہ بدر کیا جاتا تھا یا اس پر کسی مخصوص علاقے میں داخلے پر پابندی عائد کی جاتی تھی، تاکہ متاثرہ شخص اس کو دیکھ کر طیش میں نہ آئے یا اس کے خاندان کو شرمندگی کا سامنانہ کرنا پڑے۔ اسی طرح کی سزائیں مَیں نے یہاں برطانیہ میں دیکھی ہیں، جہاں بعض اوقات کسی شخص کا اس کے مخصوص جرم کی سزا میں کسی مخصوص علاقے پر اس کا داخلہ بند کیا جاتا ہے، یا اگر وہ اپنے بچوں کے ساتھ مارپیٹ میں ملوث پایا جائے، تو اسے سزا کے طور پر ایک مخصوص مدت تک اپنے گھر میں داخل ہونے سے روک لیا جاتا ہے۔
’’رواج نامۂ سوات‘‘ اس سے قبل بھی شائع ہوئی ہے لیکن اب یہ ایک طویل عرصہ سے نایاب چلی آر ہی تھی۔ اس کی اہمیت کے پیشِ نظر بعض جج حضرات اور وکلا کے علاوہ عام شائقین بھی اس کتاب کی اشاعت کا مطالبہ کر رہے تھے۔ کتاب کی گذشتہ اشاعت میں زبان و بیاں کی غلطیاں بہت زیادہ تھیں اور دوسرا اسے ایک بے ہنگم سائز میں شائع کیا گیا تھا۔ اس کی کتابت اور طباعت بھی معیاری نہیں تھی۔ اس لیے ہم نے اس کی موجودہ اشاعت میں زبان و بیاں کی غلطیاں درست کرنے کی کوشش کی ہے اور اسے نوری نستعلیق کے خوب صورت فونٹ کے ساتھ ایک موزوں سائز میں دیدہ زیب انداز میں شائع کیا ہے، تاکہ سابق ریاستِ سوات کی یہ تاریخی دستاویز ہر خاص و عام تک پہنچے اور وہ اس سے بہ وقتِ ضرورت استفادہ کرسکیں۔
’’رواج نامۂ سوات‘‘ شعیب سنز پبلشرز اینڈ بک سیلرز سوات مارکیٹ، جی ٹی روڈ مینگورہ (فون:0946-729448) سے طلب کی جاسکتی ہے۔
اس کے علاوہ پشاور میں یونیورسٹی بک ایجنسی خیبر بازار، اسلام آباد میں سعید بک بینک جناح سپر مارکیٹ، لاہور میں المیزان پبلشرز اُردو بازار اور کراچی میں فضلی سنز اُردو بازار میں بھی دست یاب ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں