زبیر توروالیکالم

آفات اور ہماری ترجیحات

روزانہ کئی پوسٹس دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں شکوہ کیا جاتا ہے کہ فُلاں ایم پی اے یا فُلاں ایم این اے ہمارے سیلاب زدہ علاقوں میں نہیں آیا اور ہمارا حال نہیں پوچھا۔ ایسے احباب میں دو قسم کے لوگ آگے آگے ہوتے ہیں۔ ایک وہ کارکن جو کسی اور پارٹی کے نمایندوں کو دیکھتے ہیں، تو سیاسی طور پر چاہتے ہیں کہ اُن کے لیڈر بھی یہاں موجود ہوں۔ کیوں کہ مصیبتوں اور آفات کے وقت مقابلے کا رجحان بھی نمایاں ہوتا ہے۔ یہ مقابلہ اکثر راشن کی وصولی میں بھی دیکھا جاتا ہے۔
دوسرا گروہ وہ ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ اُن کا ’’خپل سیاسی نمایندہ‘‘ (اپنا سیاسی نمایندہ) آئے، تاکہ وہ ان پتھروں پر ان کے ساتھ سیلفیاں نکال کر فیس بک کی زینت بناسکیں۔
ہم مفت راشن کے ایسے دیوانے ہوگئے ہیں کہ اگر کوئی مخیر حضرت آئے اور کہے کہ وہ دو کاموں (سیلاب زدہ سکول کی تعمیرِ نو یا گاؤں کو ایک ٹرک راشن میں سے) ایک کام کرے گا، تو تین چوتھائی سے زیادہ لوگوں کی ترجیح یہ راشن والا ٹرک ہوگی۔ وجہ اس کی بھوک بتائی جائے گی۔ اب کون کتنا بھوکا ہے…… اس دھکم پیل اور شکم کھیل میں کوئی تمیز نہیں کرسکے گا۔
ہماری پوری تحصیل کا حلیہ حالیہ سیلاب نے بگاڑ کررکھ دیا ہے ۔ ایسے میں اس علاقے کو آگے کئی انتظامی مسایل کا سامنا ہوگا۔ ہمارے یہاں 1200 کے قریب گھر تباہ ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اتنے خاندان بے گھر ہوگئے ہیں۔ ان میں سے اکثریت کے پاس متبادل زمین ہے اور نہ درکار مالیت کہ وہ اپنا گھر تعمیر کرسکیں۔
اس طرح زمین کے حوالے سے کئی نئے تنازعے جنم لیں گے۔ کیوں کہ دریاؤں اور نالوں نے اِدھر کی زمین اُدھر کردی ہے اور اُدھر کی اِدھر۔ ان تنازعات کو کیسے حل کیا جائے گا؟ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔
یہاں دریاؤں نے گاؤں کے گاؤں کاٹ کر رکھ دیے ہیں۔ پل بہہ گئے ہیں۔ راستے تباہ ہوچکے ہیں۔ سکولوں کو جانے والے راستے تباہ ہوچکے ہیں۔ باقی ماندہ گاؤں اور گھر خطرناک ہوچکے ہیں کہ بسنت کی بارشوں سے یہ ساری چٹانیں گر جائیں گی اور ان کے ساتھ کئی گھر اور زمینیں بھی تباہ ہوجائیں گی۔
دریاؤں اور نالوں میں آبادیوں کے قریب کوئی پشتی دیوار نہیں بچی۔ ویسے ایسی کوئی دیوار تھی ہی نہیں۔ اس کے علاوہ یہاں کے مقامی لوگوں اور سیاحت سے متعلق لوگوں کے سر پر ’’ریور پروٹیکشن ایکٹ‘‘ کی صورت میں ایک تلوار لٹک رہی ہے۔ اس تلوار کی تیز دھار کا رُخ صرف عوام کی طرف ہے۔ ورنہ ہر کوئی جانتا ہے کہ سرکار ہی کے منصوبوں کی وجہ سے کئی دریا اور ندیاں ملبے سے بھردی گئی ہیں۔ درال ندی کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ اوپر ایک سڑک بناتے وقت سارا ملبہ درال میں گرا دیا گیا۔ اس طرح جہاں بھی جس گاؤں کو سڑک بنائی جاتی ہے، اس کا ملبہ ساتھ دریا ہی میں پھینکا جاتا ہے۔ اس وقت کسی کو یہ ’’ریور پروٹیکشن‘‘ والا قانون یاد نہیں رہتا۔ ’’درال خوڑ ہائڈرو پاؤر منصوبے‘‘ کے پاؤر پلانٹ کی دیوار کہاں بنائی گئی ہے؟ دریائے سوات کے اندر اور انتی مضبوط کہ اس کے سامنے کئی کنال زمین اس دیوار کی پختگی کی وجہ سے بہہ گئی۔ اسی طرح پونکیا میں بحرین کے لیے چھوٹے پن بجلی گھر کی عمارت کہاں بنائی گئی تھی اور اب وہ کہاں ہے؟ آپ کریں، تو ٹھیک۔ عوام کریں، تو مجرم……!
’’ریور پروٹیکشن ایکٹ‘‘ کے تحت دریائے سوات کے آر پار 200 فٹ تک آبادی کرنا جرم ہے۔ کیا کسی نے مدین تا کالام اور گبرال اس وادی کا دورہ کرکے یہ قانون بنایا ہے؟ ہر گز نہیں۔ اگر اس قانون پر من و عن عمل کیا جائے، تو بحرین میں آدھے گاؤں کو بھی گرانا ہوگا۔ اس تنگ گھاٹی میں یہ قانون! ان ایم پی ایز اور ایم این ایز کو یہاں نہ بلائیں، بلکہ ان کا کام دیرپا منصوبہ بندی ہونا چاہیے کہ وہ:
٭ اس ریور پروٹیکشن ایکٹ میں ترمیم کروائیں۔
٭ یہاں بڑے دریا اور ساتھ والی ندی نالوں میں پشتی دیواروں کے لیے پالیسی بنائیں اور ان دیواروں کی تعمیر کریں۔
٭ یہاں کی زرعی زمینوں سے جڑے تنازعات کے حل کے لیے کوئی لایحۂ عمل تیار کریں۔
٭ ان دریاؤں اور ندیوں پر چیک ڈیمز (Check Dams) بنوائیں، تاکہ مزید تباہی سے بچا جاسکے۔
٭ درال اور گبرال وادیوں میں بے دریغ اور بے جا چرواہت میں کمی اور اس کا بہتر انصرام کروائیں۔
٭ جنگلات کی کٹائی کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کریں۔
٭ یہاں دریاؤں اور ان ندیوں کے اپنے رُخ کو 2010ء سے پہلے والی پوزیشن پر لے جائیں اور ان دریاؤں اور ندیوں کو ملبے سے خالی کروائیں۔
٭ اس علاقے سے سیلاب یا گرمیوں کے پانی میں جو لکڑی بہہ کر نیچے جاتی ہے، اس کی واپسی کے لیے کوئی قانون بنوائیں۔
٭ مقامی حکومتوں کے نمایندوں کو مزید مالی و انتظامی اختیارات دلوائیں، تاکہ مقامی سطح پر کام ہوسکے۔ موجودہ صورتِ حال میں ایک آدھ مقامی نمایندوں کے علاوہ باقی سب اپنی اپنی پارٹیوں کے لیڈران کی تعریفوں پر مامور ہوچکے ہیں۔
٭ اپنے سیاسی باس لوگوں کو خوش کرنے کے لیے افسرشاہی مقامی لوگوں کو مجرم قرار دینا بند کردے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں