شہاب شاہینؔکالم

ایوب خان اشاڑے

  ’’مَیں گھٹنوں کے بل زندگی گزارنے سے کھڑے ہو کر مرنا پسند کروں گا۔‘‘ (چی گویرا)
ارجنٹینا کے مشہور انقلابی گوریلا جنگ جو ’’چی گویرا‘‘ کا یہ قول کل رات تب یاد آیا، جب سوات کے امن کی توانا آواز ایوب خان اشاڑی کو رات اسلحے سمیت پولیس کے شانہ بہ شانہ دیکھا۔
محمد ایوب خان جن کو پورا سوات ’’اشاڑی‘‘ کے نام سے جانتا ہے۔اشاڑے مٹہ کا ایک خوب صورت، سر سبز و شاداب علاقہ ہے۔کل رات (24 ستمبر 2024ء) سوات میں ’’نامعلوم حملہ آوروں‘‘ کی فائرنگ سے ایک پولیس اہل کار زخمی جب کہ دو نقاب پوش حملہ آور ہلاک ہوئے تھے۔
دراصل بازخیلہ بائی پاس پر پولیس چوکی اشاڑے کے انچارج ایک پرائیویٹ موٹر گاڑی میں گشت پر روانہ تھے کہ نامعلوم حملہ آوروں نے اچانک ان کی گاڑی پر فائرنگ کر دی۔ اس حملے میں پولیس کے تین اہل کار زخمی ہوگئے۔پولیس کی جوابی فائرنگ سے دو نقاب پوش حملہ آور مارے گئے۔
یہ واقعہ کل رات (24 ستمبر 2024ء) تقریباً دس بج کر پندرہ منٹ پر پیش آیا۔ درشخیلہ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے ایوب اشاڑی کو بہ ذریعہ فون اطلاع دی کہ ’’نامعلوم افراد کی جانب سے اشاڑی پولیس پر حملہ ہوا ہے، جس میں پولیس اہل کار زخمی ہیں۔‘‘
ایوب اشاڑی نے فون رکھتے ہی اپنے تمام دوستوں اور اہلِ علاقہ کو خبر دیتے ہوئے اور اپنے بھتیجے بلال خان اور ساجد علی کے ہم راہ اپنا ذاتی اسلحہ اٹھا کر جائے وقوعہ پر پہنچے اور وہاں سے زخمی اہل کاروں کو اپنی ذاتی گاڑی میں اسپتال پہنچایا اور خود اسلحہ سمیت اہلِ علاقہ کے ساتھ مل کر علاقے میں باقاعدہ پہرہ دیتے رہے۔
وہاں سے جانے کے بعد مٹہ اسپتال زخمی پولیس اہل کاروں کی عیادت کے لیے پہنچے اور اہلِ علاقہ اور پولیس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ نے ہمت نہیں ہارنی۔
اس موقع پر پولیس کے اعلا افسران بھی وہاں موجود تھے۔ پولیس اور سوشل میڈیا پر لوگوں نے اہلِ علاقہ اور ایوب اشاڑی کے اس عمل کو خوب سراہا اور داد دی۔
یاد رہے کہ سوات آپریشن سے پہلے نہ صرف ایوب خان کے دو جوان بھتیجے شہید کیے گئے تھے، بل کہ اُن کا گھر بھی بم سے اُڑایا گیا تھا، مگر اُنھوں نے کبھی کسی مشکل میں اپنے علاقے اور اہلِ علاقہ کو تنہا نہیں چھوڑا۔ ایسے کچھ مشران چاہئیں جو ڈٹ کر کھڑے ہوں، تاکہ دیگر کی بھی ہمت بندھی رہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں