احسان علی خانکالم

این اے ٹو سوات ون کا منفرد امیدوار۔۔۔معراج محمد

انتخابات کے دن قریب آتے ہی روایتی سیاست دان ایک بار پھر سے متحرک ہوگئے ہیں۔ چار پانچ سال منظر عام سے غائب رہنے والے سیاست دان الیکشن آتے ہیں عوام میں گھل مل گئے ہیں۔ خوشی ہو یا غمی، سیاست دان ہر موقعہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ یہ الیکشن کے دنوں عوامی خدمت کے دعوے د ار ہوتے ہیں لیکن جب ایک بار منتخب ہوجائیں، تو پھر دور بین میں بھی نظر نہیں آتے۔ عموماً ہمارے سیاست دان مالی طورپرمضبوط اور علاقے میں بڑا اثر و رسوخ رکھتے ہیں لیکن این اے ٹو سوات ون کے معراج محمد ایک ایسے منفرد امیدوار ہیں، جن کے پاس بیش بہا دولت ہے اور نہ باپ دادا کی جاگیر۔ یہ دوسرے سیاست دانوں کے مقابلے بڑا سیاسی خاندان بھی نہیں رکھتے۔ ان کا ایک چھوٹا سا گھرانہ ہے اور وہی ان کی دنیا۔ معراج محمد کوئی روایتی سیاست دان نہیں بلکہ ایک عوامی خادم ہیں۔ دوسرے عوامی خادمین کے برعکس ان کے پاس کوئی لینڈ کروزر نہیں ہے بلکہ ان کا بہ مشکل ہی گزارہ ہوپاتا ہے۔ یہ ایک ویلفیئر ٹرسٹ چلاتے ہیں۔ لوگوں سے چندہ اکٹھا کرکے انہی پر لگاتے ہیں۔ اگر میں کہوں کہ معراج صاحب حلقہ این اے ٹو سوات ون کے ایدھی ہیں، تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔ ذرا ان کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
میراج محمد مدین کے رہنے والے ہیں۔انہوں نے عوامی خدمت سے پہلے تقریباً اٹھارہ سال فیصل آباد میں گزارے۔ یعنی یوں کہہ لیں کہ ان کی جوانی غیر شہر میں گزری ۔ ان دنوں معراج دین کا تعلق عوامی نیشنل پارٹی سے تھا۔ ولی خان بابا اور ان کی بیگم نے میراج محمد کو بیٹا کہا تھا۔ان کی بحیثیت ایک کارکن، پارٹی کے لئے بہت خدمات تھیں ۔ اس کے بعد انہوں نے شادی کرلی اور مدین چلے گئے ۔ ان دنوں مدین میں ہسپتالوں کے حالات اتنے خراب تھے کہ مدین سے کالام تک کسی ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹر تک کی سہولت میسر نہیں تھی۔ ایک دن معراج محمد کی زوجہ کی طبیعت امید سے ہونے کی وجہ سے بگڑ گئی ، وہ انہیں مدین ہسپتال لے آئے ۔ لیکن مدین ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹر موجود نہیں تھی اور سیدوشریف لے جانے کے ان کے پاس پیسے تھے نہیں۔ یوں ان کی زوجہ وہی مدین ہسپتال میں وفات پاگئیں۔ زوجہ کی وفات کے بعد معراج محمد کو بڑا صدمہ پہنچا اور انہوں نے اپنی باقی زندگی عوام کی خدمت کے لئے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔آپ نے زوجہ کی وفات کے تین دن بعد مدین ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹر کی تعیناتی کی کوششیں شروع کردیں۔ ان کی کوششیں رنگ لے آئیں اور ایک لیڈی ڈاکٹر حاجرہ مدین ہسپتال میں تعینات کردی گئیں۔ان دنوں پورے کالام اور مدین میں یہ واحد لیڈی ڈاکٹر تھیں۔ اس کے بعد معراج محمد نے عبدالستار ایدھی کی تنظیم کی طرح اپنی ایک تنظیم ’’معراج ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ شروع کی ۔ اس دن سے لیکر آج تک،معراج محمدعوام کی خدمت کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔ جیسے کہ کوئی بیمار شخص ان کے پاس علاج کے لئے پیسے مانگنے آجائے تو یہ وہی کے وہی چندہ اکٹھا کرکے اسے تھمادیتے ہیں۔ معراج محمدنے اب تک عوامی چندے سے کئی وھیل چیئرزخریدے اور مستحقین میں تقسیم کئے ہیں۔ ان وھیل چیئرز پر ان کا یا ان کی تنظیم کا نام تک نہیں لکھا ہوتا۔علاقے میں سڑک کسی وجہ سے بند ہوجائے ،تو یہ خود ہی رکاوٹیں دور کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے اپنے علاقے مدین میں ڈگری کالج انہی کی کوششوں سے قائم ہوا۔ شروع شروع میں یہ کالج کے قیام کا مطالبہ لیکر احتجاجی مظاہرے کرنے لگ گئے۔انہوں نے مدین ڈگری کالج کے لئے مہم کا آغاز شروع کردیا۔ ان دنوں دیدار ملک مدین آگئے اور اس وقت کے ڈی پی او کے ساتھ ملے تو انہوں نے ڈی پی او صاحب کو بتایا کہ یہ شخص(معراج محمد) پاگل ہوگیا ہے ۔ ڈی پی او نے پوچھا کیسے پاگل ہیں؟ ملک صاحب نے بتایا کہ میراج محمد صاحب علاقے کے لئے کالج مانگ رہے ہیں۔ ان کے اپنے بچے نہیں ہیں اور نہ یہ شادی شدہ ہیں ۔بعد میں ایم ایم اے کے دور حکومت میں کالج کا بل پاس ہوا۔ یہ کالج اے این پی کے دور میں تعمیر ہوا اور اس کے افتتاحی کتبے پر اے این پی کے رہنما کا نام لکھا گیا۔ افتتاح کے موقعہ پر کسی نے ان سے کہا کہ یہ تحریک تو آپ نے شروع کی تھی، لیکن یہاں تو کسی نے آپ کا نام تک نہیں لیا اور نہ ہی تقریب میں بلایا، تو اس پر معراج صاحب نے جواب دیا کہ میں نے اپنے نام کے لئے نہیں بلکہ علاقے کے بچوں کے لئے یہ جدوجہد کی تھی۔ بچے اب کالج میں پڑھنے لگیں گے، میرے لئے یہی کافی ہے۔ کالام میں لینڈ سلائڈنگ کے موقعہ پر جب کئی گھر اس کا شکار ہوگئے تھے، تو یہ معراج محمدصاحب ہی تھے جنہوں نے ان کے لئے چندہ جمع کیا اور ان کی مدد کی۔ آٹھ سال پہلے جب سرال نامی علاقے میں ایک واقعہ کے نتیجے میں کئی گھر جھلس گئے تھے، تب معراج محمد نے متاثرین کے لئے امدادی کیمپس لگائے اور انہیں روٹی اور کپڑا مہیا کیا۔ علاقے میں کوئی بیمار ہو اور معراج محمد کے پاس آئے، تو چاہے وہ امیر ہو یا غریب، اسے ڈاکٹر اور فرسٹ ایڈ کی سہولت دینا معراج الدین کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پہلے پہل ان کا ٹرسٹ غریب یتیم بچوں کے تعلیمی اخراجات کا بیڑا بھی اٹھایا کرتا تھا لیکن دو ہزار دس کے سیلاب کے بعد یہ ٹرسٹ محدود ہوگیا۔ سیلاب آنے کے بعد انہوں نے اس دفتر کو محدود کردیا ہے۔
بتاتا چلوں کہ معراج صاحب بلدیاتی الیکشن میں مزدور کسان کی سیٹ پر الیکشن بھی لڑچکے ہیں۔ لیکن اب ان کا خیال ہے کہ چھوٹی سیٹ کی بجائے قومی سطح پر ہی صحیح معنوں میں الیکشن لڑنا چاہئے، تب ہی علاقے کے عوام کی محرومیوں کا ازالہ ممکن ہوسکتا ہے۔ قومی سیاست میں الیکشن کیمپین پر لاکھوں کروڑوں خرچ کرنے والوں کے بیچ موجود معراج صاحب کے ساتھ کچھ بھی نہیں ہے۔ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے یہ انتخابی کیمپین اس طرح سے نہیں چلارہے جس طرح ہمارے سیاست دان چلاتے ہیں۔ ان کے فرزند کے مطابق’’ کئی پارٹیوں نے میرے والد صاحب کو کہا تھا کہ ہماری پارٹی جوائن کرو، الیکشن لڑو۔ ہم آپ کو بھر پور سپورٹ کریں گے لیکن میرے والد نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی پارٹیوں نے عوام کے لئے کیاِ ہی کیا ہے ؟ہمارے کچھ مطالبات ہیں، میں آزاد حیثیت سے الیکشن میں کھڑا ہورہا ہوں۔اگر اللہ نے کامیابی عطا فرمائی تو اس کے بعد جو بھی پارٹی میرے مطالبات مانے گی ،میں اسی پارٹی میں شمولیت کرلوں گا۔‘‘
یہاں آپ کو ایک دلچسپ بات بتاتا چلوں۔ جہاں معراج محمد رہتے ہیں، وہاں موجود دریائے سوات کی تیز لہریں وقفے وقفے سے کسی نہ کسی کو بہاکر لے جاتی ہیں۔ چونکہ تیز بہاؤ کی وجہ سے دریا میں بہنے والی لاش پتھروں سے ٹکراتی ہوئی تیرتی ہے، اس لئے اکثر لاشوں کا چہرہ مسخ ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے ان کی شناخت ممکن نہیں ہوپاتی۔ معراج محمد ایسی لاوارث لاشوں کو دریا سے برآمد کرنے کے بعد ان کے کفن دفن کا انتظام کرتے ہیں، غسل دیتے ہیں اور ان کو عزت کے ساتھ دفناتے ہیں۔مدین میں آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے اٹھارہ سال پہلے بنے قبرستان میں قبروں کے لئے بہت کم زمین دستیاب ہوتی ہے۔ علاقے کے لوگوں نے معراج صاحب سے کہا کہ ہمارے اپنے لوگوں کے لئے یہاں قبرکے لئے زمین میسر نہیں اور آپ میتوں کو اٹھا کر یہاں دفنا رہے ہیں ۔ اس کے بعد معراج صاحب مدین سے دور ایک اور جگہ ان لاوارث میتوں کو دفنانے لگے۔
قارئین، معراج محمد کا مقابلہ روایتی سیاست دانوں سے ہے۔ وطن عزیز میں غیر روایتی سیاست دانوں اور عام آدمی کا الیکشن جیتنا کسی معجزے سے کم نہیں ہوتا۔ لیکن معراج محمد نے کم از کم اس بار ایک کوشش ضرور کی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ ہمارے لوگ ایک حقیقی خادم کو ووٹ دیتے ہیں یا پھر یہاں بھی ہماری روایتی سیاست کی جیت ہوتی ہے۔ یہ فیصلہ تو وقت کرے گا ،لیکن میری طرف سے معراج محمد کو سلام کہ انہوں نے ایک شروعات ضرور کی اور ایک مثبت قدم اٹھایا۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں