پروفیسر سیف اللہ خانکالم

دکان داروں کی طاقت 

31 مئی 2018ء کو نواز شریف کی جماعت کی مرکزی حکومت اپنے پانچ سال مکمل کرکے ختم ہوگئی۔ پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کی طرح یہ جماعت بھی مالدار لوگوں کی جماعت ہے، جو بہت بڑا سرمایہ خرچ کرکے حکومت میں آتی ہے اور قدرتی طور پر اپنے خرچے سے زیادہ وصول کرنے کی خواہشمند ہوتی ہے۔ اس برائی کی وجہ یہ ہے کہ ہم مسائل کے حل کرنے کے دوسرے طریقے معلوم کرنے اور اُن پر عمل درآمد کی اہلیت نہیں رکھتے۔ حالاں کہ ضرورت تبدیلیوں کی ہے۔
ایک سنجیدہ دکان دار سے میں نے معلوم کیا کہ مینگورہ شہر میں چھوٹے بڑے بازاروں اور گلیوں کوچوں والی ہر قسم دکانوں کی تعداد اندازاً کتنی ہوگی؟ تو اُس نے کئی ہزار کا اندازہ لگایا۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ کیا ہر دکان دار صرف دس روپیہ یومیہ صدقہ خوشی سے دے سکے گا، تو اُس نے کہا، یقینا۔ پھر میں نے کہا کہ چلو دس ہزار نہیں پانچ ہزار فرض کرلیتے ہیں۔ وہ میری باتوں کو بہت غور سے سن رہا تھا۔ پھر میں نے اُس سے کہا کہ بہت سارے دکان داروں کے بہت صالح اور جدید تعلیمافتہ بیٹے اکثر بے روزگار بیٹھے ہوتے ہیں۔ اُن کے پاس کچھ کرنے کی خواہش اور نوجوانی کی عظیم طاقت ہوتی ہے۔ وہ پُرجوش اور متحرک لوگ ہوتے ہیں۔ مشکل سے مشکل کام کرسکتے ہیں۔ اگر صرف مینگورہ کے سیدو میونسپل ایریا کے دکان داروں کے پانچ سنجیدہ دکان دار حضرات، دکان داروں ہی کے بیٹوں پر مشتمل ایک فورس بنا دیں۔ اس کو ’’محکمۂ سماجی بہبود‘‘ سے رجسٹر کر وا کے ان نوجوانوں سے معاشرے کی فلاح کا کام لینا شروع کریں، تو رب العالمین یقیناًنیک اجر عطا کرے گا۔ پانچ بزرگ اور غیر جانب دار دکان دار خود ان نوجوانوں کی اس فورس کی نگرانی کریں گے۔
جس طرح انسانی معاملات ہمیشہ ایک تصور سے شروع ہوتے ہیں، اس طرح میں نے اپنے اس تصوراتی نقشے کو آگے بڑھاتے ہوئے وضاحت کی کہ یہ نوجوان ٹیم پہلے ہر دکان دار کو بریف کرکے بتائیں گے کہ وہ لوگ فی سبیل اللہ صرف دس روپیہ یومیہ صدقہ جمع کریں گے اور مہینے کے بعد یہ نوجوان اُس سے وہ رقم لے کر اُسے ایک رسید دیں گے اور رقم کو مذکورہ بالا میں کسی بھی دو بزرگ دکان داروں کے جائنٹ کرنٹ اکاؤنٹ میں محفوظ کریں گے۔ یہی بزرگ پانچ لوگ سب یا کم از کم اُن میں تین اگر مقامی ہسپتال جاکر ایسے کاموں پر یہ پیسہ خود خرچ کریں جو بجٹ کی کمی کی وجہ سے خراب پڑے ہوں۔ ایسی دوائیاں مریضوں کو اسی صدقے کے پیسوں سے خرید کردیا کریں جو بہت مہنگے ہوں۔ اسی صدقے کے جمع کردہ پیسوں سے طلبہ و طالبات میڈیکل اور انجینئرنگ وغیرہ کالج میں امداد فراہم کریں۔ اسی رقم سے دوسرے ثواب کے کام کریں، تو اُن دکان داروں کو جو صدقہ کے یہ پیسے جمع کردیتے ہیں، نوجوان لڑکوں کو جو اس کے لیے محنت کرتے ہیں کو رب رحیم و کریم اجر عطا فرمائے گا۔ اگر یورپ اور امریکہ میں عام لوگ اسی طرح کروڑوں ڈالرز سالانہ جمع کرکے پوری دنیا میں نادار افراد کی مددکرتے ہیں، تو مسلمان کیوں ایسا نہیں کرسکتے؟ فی الحال بھی کروڑوں روپیہ مسلمان لوگ ادا کرتے ہیں، لیکن وہ اس کام کو بغیر کسی نظم کے کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر کروڑوں روپیہ جمع اور ادا ہوجاتے ہیں، لیکن بہتے دریا میں چینی سے جس طرح شربت نہیں بن سکتا، اسی طرح مسلمانوں کے اربوں کھربوں کی زکوٰۃ و خیرات سے مسلمانوں کو اجتماعی فوائد نہیں ملتے۔
چند ماہ قبل ایک مال دار خاتون فوت ہوگئی فوتگی کے فوراً بعد کئی مساجد اور مدارس کے حضرات اُس کے لواحقین کے پاس مختلف اوقات میں پہنچ گئے۔ کسی نے کہا کہ مرحومہ کے ترکہ سے ہمارے مدرسے کے لیے قرآن شریف کے سو نسخے خرید کر دیں۔ کسی نے کسی تعمیراتی کام میں مدد چاہی اور کسی نے کسی اور مقصد کے لیے۔ ایک صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ مرحومہ سے زندگی میں نمازیں اور روزے چھوٹ گئے ہوں گے۔ ترکے سے یہ خیرات اُن کوتاہیوں کا بدلہ ہوگی۔ اپنی مجبوریوں اور اغراض کے لیے یہ تمام حضرات اس حقیقت کو بھول گئے کہ مرنے کے بعد کسی انسان کا ترکے پر حق باقی نہیں رہتا بلکہ ترکہ اُن زندہ انسانوں کی ملکیت ہوجاتا ہے جو مرحوم کے ورثا ہوں۔ وہ چاہیں، تو اُسے کسی کو دیں، چاہیں، تو کسی کو بھی نہ دیں۔
حضرت ابوبکرؓ نے زکوٰۃ سے انکاری قبیلے کے خلاف فوج بھیجی۔ فضائلِ اعمال میں لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ نے صدقے کی اونٹنیوں کے دودھ کو اُگل کر تھوک دیا تھا۔ ان دو واقعات کے علاوہ بے شمار مقامات پر یہ تحریر ہے کہ مسلمانوں کے اقتدار میں زکوٰۃ اور دوسرے محصولات حاکمِ وقت (یعنی حکومت) ہی جمع کرتا تھا اور آگے خرچ کرتا تھا۔ ہندوستان اور تقریباً پوری اسلامی دنیا پر ایک وقت ایسا آیا کہ مسلمان کلی یا جزوی طور پر دوسروں کے غلام ہوئے۔ اس لیے یہاں حکومت کی جگہ مسلمانوں نے خود زکوٰۃ وغیرہ کا خرچ کرنا شروع کر دیا، یعنی حکومت یہاں درمیان سے نکل گئی (غلطی ہو تو میری رہنمائی کی جائے)۔ پاکستان بن جانے اور دوسرے ممالک میں جہاں مسلمانوں کی اپنی حکمرانی ہو، وہاں ان محصولات کا اپنی اپنی حکومتوں کو ادا کرنا جائز ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان میں زکوٰۃ کے اکٹھا کرنے اور خرچ کرنے کا نظام موجود ہے، لیکن یہاں میرا موضوع یہ ہے کہ ہر دکان دار دس روپیہ یومیہ صدقہ جمع کرکے پھر دکان داروں ہی کے اپنے لوگ اُس رقم کو نیکی کے کاموں پر خرچ کرنا شروع کر دیں، تو بے شمار فوائد ہوں گے۔ مثال کے طور پر آپ سرکاری ہسپتال کے ایم ایس کے پاس جاتے ہیں اور اُن سے پوچھتے ہیں کہ ایک چارپائی پر یہ دو دو مریض کیوں ہیں؟ اور وہ بتاتا ہے کہ ہمارے سو چار پائیاں قابلِ مرمت ہیں۔ بجٹ، ٹینڈر، بولی اور ٹھیکیدار وغیرہ وقت لے رہا ہے۔ آپ نے ان چارپائیوں کی خود مرمت کروا دی۔ ایم ایس نے بتایا کہ فلاں مشین خراب ہے، آپ نے اس کی مرمت کروائی۔ اس طرح بے شمار کام ہیں جن کو دکان داروں کی یونین کرسکتی ہے، فی سبیل اللہ بغیر کسی لحاظ اور لالچ کے۔ اجر تو اللہ دیتا ہے۔ اس لیے میری دعا ہے کہ دکان دار صرف دس روپیہ روزانہ والی رقم ذرانئے طریقے سے خود اپنے ہاتھوں سے خرچ کرنا شروع کریں اور دیکھیں کہ کتنا بھلا ہوتا ہے میں اور مجھ جیسے بہت سارے تجربہ کار لوگ اس کارِ خیر میں رضا کارانہ کام کرسکتے ہیں۔ بعض حضرات یا حلقے اس کام کی مخالفت بھی کریں گے، لیکن فائدے اور نقصان کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔ خدا نے تاجروں اور دکان داروں کو بہت قوتیں دی ہیں، اُن کی قوتوں سے ثواب کا کام لینے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں