پروفیسر سیف اللہ خانکالم

ریاست مدینہ اور ہم

وزیراعظم پاکستان سے منسوب ریاستِ مدینہ کا ذکر بہت اچھا لگا کہ ایک مسلمان کرسی نشین بھی محمدی دورِ اقتدار کو معیاری دور سمجھتا ہے۔ خدا کرے ہمارے مقتدر افراد نبی کریمؐ اور حضرتِ عمرؓ کے طریقۂ حکمرانی کو اپنا سکیں۔ قیامِ پاکستان کا مقصد قرآن و سنت کے اصولوں پر ایک ایسی ریاست بنا کر دنیا کو پیش کرنا تھا، جو مجبور انسانوں کے لیے سرمایہ دارانہ (کیپٹل ازم) اور اشتراکی (سوشل ازم) جیسے مادہ پرستانہ نظام سے ہٹ کر ہو۔ حالات و واقعات نے اس سوچ کو آگے نہ بڑھنے دیا۔ حالاں کہ جو اول ترین محکمہ، پاکستان کے پہلے گورنر جنرل حضرت قائد اعظم نے کھڑا کیا تھا، اس کا مقصد اسلامی نظامِ حکمرانی کے مطابق نوزائیدہ ریاستِ پاکستان کا نظامِ حکمرانی موڑنا تھا۔ بدقسمتی سے پاکستان پر نو وارد غیر پاکستانیوں کا قبضہ ہوگیا، جنہوں نے ہر معاملے میں بے غرضی کی جگہ خود غرضی کو پیشِ نظر رکھا اور یہ خوفناک ذہنی خلیج آج تک قائم ہے، بلکہ اب تو کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ ہم اگر احتیاط کے ساتھ سچی بات کہیں، تو وہ یہ ہوگی کہ آج 70 سال بعد بھی ’’مہاجر مہاجر ہے، پنجابی پنجابی، بلوچی بلوچی اور سندھی سندھی۔‘‘
آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہوشیار غیر پٹھان، پٹھانوں کو کمتر سمجھتے ہیں کوئی بھی ذہین پٹھان اس رویے کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے۔ میڈیا، سلیبس اور خطبات کے ذریعے پاکستانی اقوام میں یکجہتی پیدا کی جاسکتی ہے۔
ہم پی ٹی آئی سے گہرا شکوہ نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ اس کے بنیادی اور غیر بنیادی امور زیادہ تر غیر سنجیدہ اور نا پختہ اذہان نمٹا رہے ہیں۔ مثالیں تو بے شمار ہیں لیکن پہلی اور اہم ترین تقریر میں پانچ لاکھ گھروں کی تعلیم اور عوام میں تقسیم، ریاست کے روایتی اثاثوں کے بارے میں بازاری اعلانات، موٹر گاڑیوں کی نیلامی، اشرافیہ کے لیے اعلیٰ عمارتوں کو سبزی منڈیوں میں تبدیل کرنے کا خیال، یہ اور اس قسم کے بچکانہ اعلانات جگ ہنسائی کا سبب ہیں۔ عقل کا تقاضا یہ تھا کہ عمران صاحب شروع کے تین مہینوں میں صرف خوش اخلاقی اور تدبر کے ساتھ حزبِ اختلاف، میڈیا، مارکیٹ، مذہب، دوسرے طاقتور مافیوں، ٹریڈ یونینوں، پڑوسی ممالک کے سفیروں، پڑھے لکھے سنجیدہ دانشوروں، ریٹائرڈ اور حاضرِ سروس ججوں اور جرنیلوں سے مناسب انداز سے وقت لے کر اُن کے خیالات حاصل کرتے لیکن اپنے ارد گرد شائد آپ نے مرغی انڈا فروش سطح کے لوگ رکھے ہوئے ہیں، جو آپ کو ایک بڑے اور لٹے پھٹے جوہری ملک پر مشورے دیتے ہیں۔ آپ نے جن لوگوں کو ہم پر سوار کیا، اُس پر ہم آپ سے نااُمید اور ناخوش ہیں۔ آپ کی جماعت میں دانش مند لوگوں کی کمی نہ تھی، لیکن آپ نے گلی ڈنڈا کھیلنے والوں کو حکمرانی کے لیے پسند کیا، اور نتیجہ اب آپ کے سامنے ہے۔ حکومتِ نبوی ؐ کی نقل بہت مشکل کام ہے۔ اُس میں سب سے پہلے کردار سازی، ضبطِ نفس اور ایثار و قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ سرکاری ملازمین میں دیانت، امانت، اہلیت اور صداقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ اہم کام نہ آپ کی پنج سالہ حکومت کرسکی ہے اور نہ اب کی ٹیم میں ہم بہتر حکمرانی کی قوت دیکھتے ہیں۔
جذبۂ خیرسگالی کے تحت آپ کی گذشتہ صوبائی حکومت نے ملازمین کو بہتر گریڈز کی تنخواہوں سے نوازا، لیکن اچھے اقدام میں آپ کی نالائق ٹیم نے ایک پخ بھی لگا دیا کہ ذرا سی زیادہ تنخواہ والی مہربانی کے ساتھ آپ کی ٹیم نے ملازمین کو بڑی ذمہ داریوں کے بوجھ سے بھی مروا دیا۔ آپ ذرا خفیہ معلومات کرکے دیکھ لیں کہ آپ کی اس غیر عادلانہ حرکتِ حکمرانی نے ہر پہلو صوبے کے عوام اور حکومت کو کتنے نقائص اور کتنی بربادیوں سے دوچار کیا؟ بڑی تنخواہ کے ساتھ بڑی ذمہ داری ظلم ہی تو تھی۔ خیر، اگر آپ مدنی نبوی حکومت کا قیام چاہتے ہیں، تو وہ مشکل ترین ضرور ہے، ناممکن بلاکل نہیں۔ بسم اللہ کیجیے، سب سے پہلے محکموں اور مارکیٹ سے نا اہل اور بددیانت افراد کو سختی کرکے نکال باہر کریں۔ ہر فیلڈ میں مانیٹرنگ کو جاری کریں۔ حکمت کے ساتھ مختلف مافیاز کی طاقت توڑیے۔ سب سے پہلے تجارت، بازار، مذہب اور میڈیا کی طرف توجہ کریں۔ یہ اور ان کی طرح دوسرے کئی مافیے بہت طاقتور ہوگئے ہیں۔ سیکڑوں بے گناہوں کو صرف تاجر ذہنیت راہِ عدم دکھاتی ہے۔ ایک بہت کم سماجی حیثیت کا ڈرائیور جو عموماً سو فی صد جاہل بھی ہوتا ہے، چند سیکنڈوں میں مسافروں کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ لیکن اُسے نہ چند دن کی قید ہوتی ہے اور نہ سزائے موت، بلکہ ان قاتلوں پر تو مقدمہ تک نہیں چلتا۔ کیا آپ کی حکومت قانون سازی کرے گی؟ کیا میڈیا کے تمام شعبوں مع مذہب اور تعلیم کا عمدہ استعمال ہوگا یا یوں ہی پاکستان صدیوں تک دشمن ممالک کا غلام رہے گا؟ کیا سنتِ نبویؐ کو دیکھ کر پاکستان کے ٹی وی پر پاکستانی کلچر اور آداب پھیلائے جائیں گے؟ کیا پاکستانی بچوں کو قومی نصاب فراہم کرنے کے لیے آپ کی حکومت فوری اقدامات کرے گی؟
لیکن آپ لوگوں کا دماغ آسمان پر ہے۔ آپ لوگ غریب کی تعریف نہیں کرسکتے۔ پندرہ سولہ لاکھ اضافی رقم رکھنے والے کو آپ غریب گردانتے ہیں، افسوس ہے۔ آپ براہِ کرم آسمانوں سے اتریے، انصاف کروایئے۔ بے گھر لوگوں کے لیے شٹر اور بستر وغیرہ فراہم کرنا صرف کرپٹ لوگوں کو سرکاری بجٹ کو ہڑپ کرنے کا بہانا بنانا ہے۔ ہم ایک عام شہری کی حیثیت سے اس حقیقت کے قائل ہوگئے ہیں کہ یا تو آپ ضدی، خود سر اور خود پسند ہیں، اپنی ہی بات کے علاوہ کسی بات نہیں مانتے اور جو بھی اوٹ پٹانگ دل میں آئے کردیتے ہیں، اور یا آپ کے مشیروں کی ٹیم میں صاحبانِ فہم و ادراک موجود نہیں۔
محترم وزیراعظم! آپ کی حکومت کے تقریباً ہر اقدام پر گلی بازاروں میں ذہین لوگ ہنستے ہیں جب کہ عام لوگ آپ کو اور آپ کی حکومت کو بد دعائیں دیتے ہیں۔ اس لیے میں ڈرتا ہوں کہ قہر خدا وندی نازل نہ ہو۔
مملکتِ مدینہ کا قیام تو فی زمانہ مشکل ہو، لیکن نبی کریمؐ کا یہ حکم اپنی جگہ موجود ہے جس میں فرمایا گیا ہے: ’’تم (اُس وقت چند صحابہ کرام کی ٹولی سے گفتگو میں) میں سے جو زیادہ زیرک، ذہین اور معاملہ فہم ہو، وہ میرے قریب کھڑا ہو، پھر درجہ بہ درجہ۔ اور بازاروں کے شور و غل سے بچا کرو۔
وزیر اعظم صاحب! خوشامدیوں، زبان دان اور چالاک لوگوں سے بچ کر رہنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ان سے محتاط رہنے کی سنجیدہ کوشش کریں۔ ہم لوگ دیکھتے ہیں کہ فضول خرچیوں میں آپ کی سرکار پچھلی حکومتوں سے بہت آگے ہے۔ ٹھیکیداروں کو نوازنے اور کمیشن خوروں کو فراہم کرنے کے لیے بہت پیسہ استعمال ہو رہا ہے۔ اس کا فوری تدارک کریں۔ مدنی طرز کی حکومت کے قیام کے لیے نبوی ؐ کے راستے اپنائیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں