فضل خالقکالم

سوئے امریکہ(تشریف فرما آئن سٹائن)

صبح ہم تابیتا سے ملے، جنہوں نے سب کو خوش آمدید کہا، تابیتا ’’انٹرنیشنل سینٹر فار جرنسلٹس‘‘ (آئی سی ایف جے) میں انٹرنی تھی۔ چوں کہ تابیتا فربہ اندام امریکی لڑکی تھی، اس لیے جب وہ ہم سے بات کر رہی تھی، تو ہم میں سے کچھ مرد حضرات اس کے سراپے کا کنکھیوں سے جائزہ لے رہے تھے۔ تابیتا نے ہمیں پانچ ہفتوں کا اعزازیہ یک مشت ادا کر دیا، مگر تمام فیلوز کا اعزازیہ یکساں نہیں تھا۔ ان میں سے بعض کا قدرے زیادہ اور بعض کا کم تھا، جس پر چند فیلوز نے بھنویں سکیڑیں اور کندھے اُچکائے۔ خوش قسمتی سے میں اُن فیلوز میں تھا جن کو سب سے زیادہ اعزازیہ ملا تھا۔مَیں دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا کہ شاید باقیوں سے مَیں زیادہ اہم ہوں، مگر بعد میں پتا چلا کہ اعزازیہ ٹرانسپورٹ کے حساب سے دیا گیا تھا، یعنی جن فیلوز کے میڈیا ہاؤسز ہوٹل سے دور ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی نہیں ہے، تو انہیں زیادہ اعزازیہ دیا گیا تھا اور جن کے دفتر ہوٹل کے قریب تھے، ان کو کم۔
امریکہ میں ہمارا پہلا دن فری تھا۔ لہٰذا ہم فیلوز واشنگٹن ڈی سی کے مختلف سائیٹس دیکھنے نکلے۔ ہمارے ہوٹل سے تقریباً ایک کلومیٹر دور ہی کئی اہم عمارتیں اور یادگاریں واقع تھیں۔ نکنلنے والے ہم سب مرد تھے، اس لیے ہم ذرا جلدی پہنچے۔ راستے میں ہم نے ’’یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس‘‘ کی عمارت دیکھی، جس کے ساتھ چند دوستوں نے تصویریں بھی بنائیں۔اس کے بعد ہم آگے بڑھے، سڑک پار کیا اور ’’آرلینگٹن میموریل پل‘‘ جو ’’لنکن میموریل‘‘ کے پیچھے ہے، گئے۔ یہ پل پتھر اور سٹیل سے بنا محراب دار قسم کا ہے، جو ’’نیو کلاسیکل آرکیٹیکچر‘‘ کا شاہکار ہے۔ اسے ’’پوٹومیک‘‘ دریا کے اوپر 1932ء میں تعمیر کیا گیا تھا، جو ’’واشنگٹن ڈی سی‘‘ کی طرف ’’لنکن میموریل‘‘ اور ’’ورجینیا‘‘ کی جانب ’’آرلنگٹن ہاؤس‘‘ کو ملاتا ہے۔ پل کی اس جانب دونوں طرف ’’آرٹس آف وار‘‘(Arts of War) نامی ’’برونز‘‘ سے بنے گھوڑوں اور جنگجوؤں کے مجسمے ہیں جو ایک طرح سے بہادری اور قربانی کا استعارہ ہیں۔ ہم نے ان مجسموں کے ساتھ تصویریں لیں اور ’’لنکن میموریل‘‘ کی طرف چل دیے۔ جب ہم اس کے ’’فرنٹ‘‘ کی طرف گئے، تو یہاں سیاحوں کا جم غفیر تھا۔ اس کے سامنے ناک کی سیدھ میں خوبصورت انداز سے پانی کا تالا ب بنایا گیا ہے، جو درمیان میں ’’نیشنل ورلڈ وار ٹو‘‘ (National World War II) یادگار اور آخر میں ’’واشنگٹن‘‘ یادگار پر ختم ہوتا ہے۔ یہ ایک وسیع و عریض اور پُرفضا سیاحتی مقام ہے۔ ہم ’’لنکن میموریل‘‘ کی عمار ت کی طرف گئے، تو دیکھا کہ یہ سفید رنگ کے ماربل سے آراستہ خوبصورت عمارت ہے، جسے قدیم یونانی ٹیمپل سے مستعار لیا گیا ہے۔ سیڑھیاں چڑھتے جب ہم اوپر پہنچے، تو دلکش ماربل سے بنے ستونوں کے درمیان سامنے دیوار پر مشہور جملے لکھا گیا ہے: “In this temple, as in the hearts of the people for whom he saved the Union, the memory of Abraham Lincoln is enshrined forever.”
اس جملے کے نیچے امریکہ کے سہولویں صدر ابراہام لنکن کا اُنیس فٹ لمبابا رُعب مجسمہ ہے جو عمارت کے باہر امریکہ کے مشہور ’’نیشنل مال‘‘ کو دیکھ رہا ہے۔ مجسمے کے بائیں جانب دیوار پر لنکن کی سب سے مشہور تقریر لکھی گئی ہے جو انہوں نے 1863ء میں کی تھی، جب کہ دائیں جانب دیوار پر اس کی 1865ء میں کی گئی ایک اور تقریر رقم کی گئی ہے۔ یہاں میں نے امریکی سیاحوں کے علاوہ غیر ملکی سیاحوں کو بھی بڑی تعداد میں دیکھا۔ مَیں نے دیکھا کہ بعض والدین اپنے بچوں کو لنکن کی تقریر پڑھ کر سنا رہے ہیں، تو بعض شادی شدہ جوڑے پوز بنا کر تصویریں بنا رہے ہیں۔ میری نظر جب ان خوبصورت جوڑوں پر پڑتی، تو ان کی ایک دوسرے کے لیے محبت دیکھ کر مجھے اچھا لگتا۔ ہم نے بھی تصویریں بنائیں۔ مجھے ابراہم لنکن کی یادگار آنے پر خوشی محسوس ہو رہی تھی، اور وہ اس لیے کہ سکول دَور سے ہمارے ایک استاد لنکن سے متاثر تھے، جو اکثر ہمیں ان کا ایک خط سناتے تھے، جو انہوں نے اپنے بیٹھے کے استاد کو لکھا تھا۔ خط میں لکھا گیا ہر جملہ بعد میں ضرب المثل قرار پایا۔ میرے دوست ضیاء الدین یوسف زئی کے سکول (خوشحال پبلک سکول) کے اندر بھی یہ خط اندرونی گیٹ کے ساتھ چسپاں تھا۔ مَیں جب بھی وہاں جاتا، تو یہ خط ضرور پڑھتا۔ یہاں تو میں وہ خط رقم نہیں کرسکتا، مگر سب دوستوں سے التماس ہے کہ وہ ابراہام لنکن کا اپنے بیٹے کے استاد کو لکھا گیا یہ خط ضرور پڑھیں۔
ہم ’’لنکن میموریل‘‘ سے باہر آئے اور ’’آئن سٹائن‘‘ یادگار کی طرف چل دیے۔ تھوڑی دیر بعد جب ہم وہاں پہنچے، تو ’’آئن سٹائن‘‘ کا سیاہ کانسی رنگ کا مجسمہ ’’نیشنل اکیڈمی آف سائنس‘‘ کی عمارت کے سامنے سڑک کی ایک جانب تشریف فرما ہے۔ ’’آئن سٹائن‘‘ کا ’’برونز‘‘ سے بنا مجسمہ سیڑھیوں پر بیٹھا کاغذ کا مسودہ ہاتھ میں لیے پُرسکون بیٹھا ہے۔ دنیا کے اس ذہین آدمی نے تومجھ سمیت پوری دنیا کو فزکس کے میدان میں اپنی ذہانت سے متاثر کیا ہی ہے، تاہم مجھے ان کا وہ خط بالکل پسند نہیں جو انہوں نے 1939ء میں امریکی صدر ’’فرینکلن روز ویلٹ‘‘ کو لکھا تھا، جس میں انہوں نے اسے جوہری پروگرام شروع کرنے اورایٹم بم بنانے پر اکسایا تھا۔ وہ خط میں نے ہیروشیما کے میوزیم میں دیکھا تھا۔ یہی وہ خط تھا جو امریکہ کے جوہری پروگرام کا پیش خیمہ بنا، دنیا کا پہلا ایٹم بم بنا یا گیا اور پھر اسے پہلی دفعہ جاپان کے شہر ہیروشیما پر استعمال کیا گیا، جس سے وہ شہر مکمل تباہ ہوا اور اَسّی ہزار سے زائد انسان لقمۂ اجل بنے۔
خیر، یہاں بھی سیاح آتے ہیں اور ’’آئن سٹائن‘‘ کے ساتھ بیٹھ کرخوشی خوشی تصویریں بناتے ہیں۔ اس موقع پر چند خواتین نے تو حد ہی کر دی، وہ جا کر ’’آئن سٹائن‘‘ کی گود میں بیٹھ کر تصویریں بنانے لگیں۔ ان خوبصورت اور ’’کوتاہ پیراہن‘‘ خواتین کو آئن سٹائن سے اتنی محبت دیکھ کر مجھ میں حسدکی آگ بڑھک اُٹھی۔ پر بعد میں سوچا کہ یہ تو محض ایک بے جان سا مجسمہ ہے، اس لیے تھوڑا سا سکون محسوس ہوا۔ ہم نے بھی ’’آئن سٹائن‘‘ کے ساتھ تصویریں بنائیں اور واپس ہوٹل کی طرف گئے۔ جب لابی میں پہنچے، تو ہمارے گروپ کی چند خواتین بھی وہا ں موجود تھیں، جن میں ایک آدھ ساتھ نہ لے جانے پر شکوہ کناں تھی۔
میں اپنے کمرے میں گیا اور رات کو اس لیے باہر نکلا کہ یہاں کی سب وے یعنی میٹرو ٹرین کے بارے میں جان سکوں۔ ہوٹل سے باہر آیا اور ’’راؤنڈ اَباوٹ‘‘ کو پار کرتے ہوئے ’’فوگی باٹم‘‘ میٹرو سٹیشن گیا، جہاں سب سے پہلا کام ٹکٹ لینا تھا۔ یہاں ٹکٹ خود کار مشین سے لینا پڑتا ہے۔ میں جب خودکار مشین کی طرف آیا، تو اسے بہت ہی پیچیدہ پایا۔ کافی دیر تک مختلف بٹن دباتا رہا، پر مسئلہ حل نہیں ہوا۔ اس لیے مَیں سٹیشن پر موجود ایک اہلکار کے پاس گیا، وہ ہٹا کٹا تھا۔ جب اس سے ٹکٹ کا کہا، تو اونچی آواز میں کہنے لگا کہ سامنے مشین سے لے لو۔ جس پر میں نے کہا کہ میں یہاں نیا ہوں اور مجھے نہیں پتا کہ کیسے ٹکٹ حاصل کیا جاتا ہے؟ موٹا آدمی باہر نکلا اور مجھے مشین کی طر ف لے گیا۔ جلدی سے کچھ بٹن دبائے اور ایک کارڈ بنایا۔ میں نے دس ڈالر دیے جو اس نے مشین میں جمع کیے۔ کارڈ حاصل کرنے کے بعد میں انڈر گراؤنڈ میٹرو ٹریک پر گیا۔ میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی، تو سٹیشن میں نہ صرف اندھیرا سا تھا بلکہ اتنا صاف ستھرا بھی نہیں تھا۔ مجھے فوراً جاپان کے میٹروسٹیشن یاد آئے، جو صاف ستھرے اور روشن ہوا کرتے ہیں۔ بورڈ پر لگے مختلف سٹیشنوں کے نام پڑھے، تو میری نظر ’’کیپٹل ہل‘‘ پر جم گئی۔ جلدی سے اس طرف جانے والی ٹرین میں چڑھ گیا اور تقریباً تین یا چار سٹیشن بعد ’’کیپٹل ہل سٹیشن‘‘ پر اُترا ۔ میں جب باہر نکلا، تو سڑک سنسان تھی۔ میرے سامنے ذرا فاصلے پر امریکہ کے مشہور کیپٹل ہل کی گول گنبد والی سفید عمارت نظر آرہی تھی۔ میں جب اس کے قریب پہنچا، تو آدھی رات ہوچکی تھی اور عمارت کے اردگرد پارک میں کسی انسان کا نام و نشان تک نہ تھا۔ میں عمارت کے قریب گیا، تو دور گارڈ نظر آیا۔ اس لیے میں واشنگٹن یادگار کی طرف چل پڑا۔ راستے میں مجھے اِک آد ھ سیاہ فام بندہ نظر آتا، تو ڈر کے مارے سڑک کی دوسری طرف چلا جاتا۔ میں نے ہالی ووڈ کی فلموں میں رات کے اندھیرے میں سیاہ فام امریکیوں کے کرتوت دیکھ رکھے تھے، جو نہ صرف لوگو ں کو لوٹتے ہیں بلکہ جان سے بھی مار دیتے ہیں۔ اسی سوچوں میں آگے کی طرف جا رہا تھا کہ اچانک ایک کار میرے قریب آکر رُکی جس کے سیاہ فام ڈرائیور نے کہا: ’’اوبر!‘‘ میں نے جواباً ’’نو!‘‘ کہا اور سیدھا چل دیا۔ سڑک کے آر پار میں نے اِک آدھ ’’سمتھ سونین میوزیم‘‘ بھی دیکھے، مگر رات کو بند ہونے کی وجہ سے میں نہ جا سکا۔ تھوڑی دیر بعد ’’واشنگٹن یادگار‘‘ والے پارک پہنچا۔ یہاں پر میں نے چند جوڑے دیکھے جو اس پُرسکون رات کے اندھیرے میں محبت کے اظہار میں مصروف دکھائی دے رہے تھے، جنہیں میں چوری چھپے دیکھتا اور دل ہی دل میں شرما جاتا۔ اس کے ساتھ خود کو اکیلے پا کر تھوڑا سا غمگین بھی ہو جاتا۔ میں یادگار کی دائیں جانب سے ہوتے ہوئے ’’ورلڈ وار ٹو‘‘ یادگار پہنچا، تو پیچھے سے کسی نے میرے بائیں کاندھے پر ہاتھ رکھا۔ (جاری ہے)

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں