افضل شاہ باچاکالم

اپنی حکومت کے نام

طویل غیر حاضری کے بعد اپنی حکومت اور خصوصاً وزیراعلیٰ کی خدمت میں کچھ عرض کرنے کی جسارت کرنے جا رہا ہوں۔ جیسا کہ سب کو علم ہے کہ سوات کے عوام ایک عرصہ سے ریاست کے جبر کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ حب الوطنی کے نام ہر قسم کا ظلم و ستم برداشت کرتے چلے آ رہے ہیں، تو ہونا تویہ چاہیے تھا کہ ہمارے زخموں پر مرہم لگایا جاتا، ہمیں سینے سے لگایا جاتا، مگر ستم ظریفی دیکھئے کہ ہماری مشکلات کو حل کرنے کی بجائے حسبِ روایت صرف وعدوں سے کام لیا جاتا رہا۔ دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے پوری دنیا سے امداد ملی، مگر پتا نہیں وہ کس نے اور کہاں خرچ کی؟
ویسے تو سوات کے عوام کو ڈھیر سارے مسائل کا سامنا ہے، لیکن سب سے اہم اور پرانا مسئلہ ’’ٹیچنگ ہسپتال سیدو شریف‘‘ کا ہے۔ ایم ایم اے کے دورِ حکومت سے لے کر اے این پی اور تحریک انصاف کے پہلے دورِ حکومت کو ملا کر اب یہ چوتھا دورِ حکومت جاری ہے، ڈھیر سارے لوگوں نے اس مسئلہ پر حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی، لیکن اب تک صورت حال واضح نہ ہوسکی کہ آخر کس وجہ سے سوات کے عوام کو صحت کے حصول کے حوالہ سے اس ہسپتال کی سہولتوں سے محروم رکھا جا رہا ہے؟ سوات کے ہسپتال میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے آئے روز قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔
آمدم برسر مطلب، پچھلے دنوں خوازہ خیلہ کے نوجوان ڈاکٹر عدنان جو کہ مذکورہ ہسپتال میں ڈاکٹر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے، ایک حادثے کے نتیجے میں جھلس کر زندگی کی بازی ہار گئے۔ سوات میں کیا پورے خیبر پختونخوا میں ’’برن یونٹ‘‘ نہ ہونے کی وجہ سے جس اذیت اور کرب سے ان کی پوری فیملی گزری، وہ ایک الگ المناک داستان ہے۔
اس طرح سیدو ہسپتال میں کوئی ’’ہیڈ انجری یونٹ‘‘ نہیں۔ اگر خدانخواستہ کسی کو ہیڈ انجری ہو جاتی ہے، تو پھر مریض کو چار و ناچار پشاور منتقل کرنا پڑتا ہے۔ یہاں کوئی ’’سی سی یو‘‘ اور ’’آئی سی یو‘‘ نہیں۔ دورانِ پشاور منتقل کرتے ہوئے اکثر مریض راستے میں دم توڑ دیتے ہیں۔
اللہ کے بندو! کیا یہ اتنی بڑی مشکلات ہیں کہ پچھلے 17 سالوں سے حل نہیں ہو رہیں؟ 17 سال کے عرصہ میں تو دنیا کہاں سے کہاں ترقی کر جاتی ہے جب کہ ہم ابھی تک ایک ہسپتال کو بنا سکے اور نہ چلا سکے۔ بقول صاحب شاہ صابرؔ
مونگ تر اوسہ لا د زمکی لائق نہ یو
د دنیا قامونہ ستوری د آسمان دی
اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت سے عوام نے ضرورت سے زیادہ توقعات وابستہ کی ہوئی ہیں۔ شائد اس وجہ سے کے پی کے کی تاریخ میں اس حکومت کو بھاری منڈیٹ دیا گیا ہے۔ چوں کہ اب وزیراعلیٰ بھی سوات سے ہیں۔ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان ہیں۔ اسی وجہ سے ملاکنڈ ڈویژن کے عوام بالعموم اور سوات کے بالخصوص توقع رکھتے ہیں کہ اس دورِ حکومت میں ہماری مشکلات کم ہونے کے ساتھ ساتھ علاقے کی ترقی کے لیے عملی کام کیا جائے گا۔
اگر واقعی سوات کے عوام کی مشکلات کم کرنا حکومتِ وقت کی ترجیح ہے، تو سیدو کے نئے ہسپتال کو فی الفور کھولنے کے احکامات جلد صادر کیے جائیں گے۔ اگر مذکورہ ہسپتال کو کھولنے میں کوئی مشکل یا مجبوری ہے، تو اہلِ سوات کو اس کے بارے میں بتایا جائے۔ ملاکنڈ ڈویژن کی لاکھوں آبادی کے لیے قائم سیدو شریف ٹیچنگ ہسپتال میں برن یونٹ، ہیڈ انجری یونٹ اور عصرِ حاضر کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے سی سی یو اور آئی سی یو کا قیام ناگزیر ہے۔ اگر یہ کام خپل وزیر اعلیٰ کے ہاتھوں بھی نہ ہوا، تو شائد آگے پندرہ بیس سال اہلِ سوات یوں ہی ذکر شدہ حادثات و بیماریوں کی وجہ سے اپنی قیمتی جانوں سے دھوتے رہیں گے۔ فیض احمد فیضؔ کی نظم کے اس بند کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ
سنا ہے ہو بھی چکا ہے فراقِ ظلمت و نور
سنا ہے ہو بھی چکا ہے وصالِ منزل و گام
بدل چکا ہے بہت اہلِ درد کا دستور
نشاطِ وصل حلال و عذابِ ہجر حرام
جگر کی آگ نظر کی امنگ دل کی جلن
کسی پہ چارۂ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں
کہاں سے آئی نگارِ صبا کدھر کو گئی
ابھی چراغ سرِ رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانیِ شب میں کمی نہیں آئی
نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں