افضل شاہکالم

اپنے وزیر اعلیٰ کے نام خط 

پچھلے دنوں اپنی حکومت کے نام سیدو شریف ہسپتال کے متعلق کچھ گذارشات پیش کی تھیں، لیکن تاحال اس حوالہ سے کوئی خوش خبری نہیں ملی۔ پاکستان تحریک انصاف کا کارکن ہوتے ہوئے اخبار کے ذریعے کھلا خط لکھنے کی اصل وجہ شاید یہ ہے کہ پارٹی کے اندر اس طرح کی تجاویز سننے یا مشاورت کرنے کا کوئی مناسب فورم موجود نہیں ہے۔
سوات کے عوام کا دوسری مرتبہ تحریک انصاف کو بھاری مینڈیٹ دینا ایک طرف تو پارٹی کے لیے فخر کی بات ہے، لیکن دوسری جانب اب جب کہ سوات کو وزیراعلیٰ کی شکل میں عزت ملی ہے، اس کا تقاضا ہے کہ سوات کے لوگوں کو اس کے ثمرات بھی ملیں۔ سوات کے انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ یہاں کے نوجوانوں کی خاطر روزگار کے سلسلے میں ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
پوری دنیا میں سرکاری نوکریوں کا تناسب پانچ فیصد کے آس پاس ہوتا ہے ، باقی 95 فی صد نوکریاں نجی شعبے سے وابستہ ہوتی ہیں۔ البتہ سرکار کی مثبت پالیسیوں کی وجہ سے معیشت کو ترقی ملتی ہے۔ لوگوں کو روزگار کے مواقع دینے اور اقتصادی ترقی لانے کے لیے قدرتی وسائل اور انسانی وسائل بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ سوات بھی قدرتی وسائل اور انسانی وسائل سے مالا مال ہے۔ اس سلسلے میں چند تجاویز پیش کرنے کی جسارت کروں گا، جن پر عمل کرکے سوات کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے ۔
شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ سوات کے نوجوان انفارمیشن ٹیکنالوجی میں پورے پاکستان میں تیسرے یا چوتھے نمبر پر ہیں، لیکن بدقسمتی سے یہاں پر ان کے لیے مناسب سہولیات اور حکومت کی سرپرستی موجود نہیں جس کی وجہ سے یا تو وہ باہر ممالک میں کام کرنے پر مجبور ہیں اور یا پاکستان کے دوسرے بڑے شہروں میں روزگار کے لیے در در کی خاک چھان رہے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ حکومت اگر سوات میں چند ضروری اقدامات کرے، تو نوجوانوں کو روزگار کے وسیع مواقع میسر آسکیں گے۔ سنا ہے کہ اس سلسلے میں ’’آئی ٹی کے پی بورڈ‘‘ سوات میں کام کررہا ہے لیکن اس کی طرف سے کوئی ٹھوس اقدامات نظر نہیں آتے۔ حکومت کو سوات میں فوراً ’’آئی ٹی پارک‘‘ کی بنیاد ڈالنی چاہیے۔ نوجوانوں کو اس میں فری آفس، فری انٹرنیٹ میرٹ پر مہیا کرنا چاہیے، جس کے نتیجے میں یہاں پر کال سنٹرز، ویب ڈیولپنگ، ایڈیٹنگ، سافٹ وئیر اور بہت سارے دوسرے پراڈکٹس ہم اندرون و بیرونِ ملک سپلائی کرسکیں گے۔ ڈھیر سارے ترقی پذیر ممالک میں لوگ دوسرے ترقی یافتہ ممالک کو اپنی سروسز فراہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے ایک تو لوگوں کو روزگار ملتاہے اور دوسری طرف فارن ایکسچینج بھی ملتا ہے۔ اس کی بہترین مثال انڈیا کی ہے۔ وہاں ترقی یافتہ ممالک کی کمپنیوں کی کال سنٹرز وغیرہ سے بہت سے تعلیم یافتہ مرد و خواتین کو روزگار ملا ہے ۔ اس طرح حکومتی اقدام کی وجہ سے سوات کے ہزاروں نوجوان بر سرِ روزگار ہوسکتے ہیں۔ ’’ٹی ایم اے‘‘ پلازہ ’’آئی ٹی پارک‘‘ کے لیے بہترین جگہ ہے ۔
دوسری گذارش یہ ہے کہ اگلے سال سوات میں ٹوورازم کے اچھے دن آنے والے ہیں۔ ان کے لیے بھی پوری پلاننگ کی ضرورت ہے۔ موٹر وے کھلنے کے بعد لوگ تو آئیں گے، لیکن ان کو سروسز دینے کے ساتھ ساتھ سہولیات کی بھی اشد ضرورت ہے۔
اس طرح سوات کے خراب حالات سے پہلے یہاں سوات میں اسٹریا کے تعاون سے ’’پیتھام‘‘ کے نام سے ایک ادارہ بنا تھا جس کا مقصد یہاں کے ٹوورازم کے لیے فورس تیار کرنا تھا۔ مختلف کورسوں کے علاوہ ہوٹلنگ میں گریجویشن شروع کرنا بھی مقصود تھا، لیکن بدقسمتی سے سوات کے ڈھیر سارے اداروں کی تباہی کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ بھی تباہ ہوگیا جو کہ تا حال زمین بوس ہے۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ حکومت فوری طور پر پیتھام کی ضروری مرمت کرکے اسے دوبارہ کھولے۔ فورسز سے درخواست کی جائے کہ وہ دوسری جگہ پر منتقل ہوں، یا ان کے لیے کوئی اور بندوبست ہو، تاکہ فوری طور پر یہاں کے نوجوانوں کو سروس سیکٹر میں ٹریننگ دلواکر ایک طرف ٹوورازم کے لیے فورسز میں اضافہ ہو اور دوسری طرف نوجوانوں کو روزگار بھی ملے، یا پھر انہیں اپنا روزگار شروع کرنے کے لیے مواقع ملیں۔
سوات میں سیلاب کی وجہ سے ڈھیر ساری قیمتی زمین خراب ہوچکی ہے۔ دریائے سوات کے اس بے کار زمین سے فائدہ اٹھانے کے لیے بھی چند تجاویز پیش خدمت ہیں۔
ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ ہزاروں من مچھلیاں پنجاب اور سندھ کے فش فارموں سے سوات لائی جاتی ہیں۔ سوات کے لوگ یہی مچھلی خرید کر کھاتے ہیں۔ کیا مچھلی فارمز سوات کے دریا کے کناروں پر تالا ب بنا کر نہیں بنائے جاسکتے؟ یقیناًبنائے جا سکتے ہیں۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ حکومت کو اس سلسلے میں بے روزگار نوجوانوں کو تکنیکی معاونت اور ابتدائی طور پر کاروبار شروع کرنے کے لیے سپیشل گرانٹ دینا ہوگی، یوں ان شاء اللہ ڈھیر سارے نوجوان بے روزگاری کے چنگل سے آزاد ہوجائیں گے۔
اس طرح ایک اور کاروبار جو کہ اس دریا کے کنارے ہوسکتا ہے، وہ “Duck Farming”ہے۔ باقی ماندہ دنیا میں بطخ کے گوشت(Duck Meat) اور انڈوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ حکومت “Duck Farming” میں نوجوانوں کی مالی اور تکنیکی معاونت کرے ، تو اُمید ہے کہ سیکڑوں نوجوانوں کو ایک اچھا اور دلچسپ روزگار مہیا ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ کے پی حکومت نے “Rabite” پراجیکٹ ضلع مانسہرہ میں شروع کیا ہے۔ یہ بھی ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ خیر سے ہمارے وزیر موصوف کو پتا ہے کہ ضلع سوات اور ضلع مانسہرہ کی آب ہوا یکساں ہے۔ برائے مہربانی یہ پراجیکٹ اپنے آبائی ضلع سوات میں بھی شروع کریں، اس سے بھی نوجوانوں کو روزگار کے مواقع مل جائیں گے۔ اس سے پہلے کالموں میں لکھ چکا ہوں کہ اگر ہم کسی طرح سوات کے بنجر پہاڑوں پر کوئی پیداواری درخت جیسے زیتون وغیرہ لگانے میں کامیاب ہوجائیں، تو ایک طرف خوردنی تیل میں ہم خود کفیل ہوجائیں گے اور دوسری طرف ماحولیاتی تباہی سے بھی بچ جائیں گے۔
وزیراعلیٰ صاحب، آپ کے علم میں شاید نہ ہو کہ پاکستان کے تمام کمرشل بنکوں نے عرصۂ دراز سے سوات کی پراپرٹی کو بطورِ سکیورٹی نہ لینے کی وجہ سے سوات کے کاروباری لوگوں کے ساتھ انتہائی ظالمانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ اگرچہ سوات کے حالات نارمل ہوچکے ہیں لیکن اس کے باوجود سوات کو ریڈ زون میں ڈال دیا گیا ہے۔ حالاں کہ سوات کے عوام کے اربوں روپے ان بنکوں میں پڑے ہیں اور یہ اُن سے کروڑوں روپے کما رہے ہیں، لیکن یہ سوات میں کسی قسم کی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اگر چہ یہ سوات کی معیشت میں بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ٹوور ازم میں بہت سارے پراجیکٹ پرائیویٹ طور پہ جیسے چیئر لفٹ، بڈنگ وغیرہ کی راہ میں یہ کمرشل بنک رکاوٹ ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کو چاہیے کہ ان بنکوں کو پابند کرے کہ کسی بھی قرضہ کے لیے سوات کی پراپرٹی کو قبول کریں اور اس کے بدلے سرمایہ کاروں کو سہولتیں دیں، تاکہ لوگ سرمایہ کاری کرسکیں اور روزگار کے مواقع کے ساتھ ساتھ یہاں کے ٹوورازم اور دوسرے شعبے ترقی کرسکیں۔ یا جو بنک تیار نہیں، تو سوات میں اس کی بینکاری کا اجازت نامہ منسوخ کیا جائے ۔ جو بنک سوات میں سرمایہ کاری کریں، ان کو اجازت ہو، اور ان کو پابند کیا جائے کہ وہ کم از کم اپنے ڈیپازٹ کا کچھ فیصد یہاں پر ’’انوسٹ‘‘ کریں۔ اپنے اور ہمارے جیسے دوسرے دوستوں کا ایک سادہ نظریہ ہے کہ جو بھی اس ملک و قوم کی بھلائی کے لیے کام کرے گا، ہم اس کو سپورٹ کریں گے او رجو اس ملک اور عوام کے خلاف کام کرے گا، ہم اس کا ہاتھ روکیں گے ۔
سوات میں اس کے علاوہ بھی بہت سارے مواقع اور تجاویز ہوں گی جس کے اوپر کام کرکے سوات کے نوجوانوں کو با عزت روزگار دیا جاسکتا ہے۔ سوات میں بہت ذہین اور باہمت لوگ رہتے ہیں۔ وہ زندگی کے ہر شعبہ میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ سول سوسائٹی میں بہت سارے شعبوں کے ماہرین اپنی خدمات سوات کی تعمیر و ترقی کی خاطر دینے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ ان لوگوں سے رابطہ کرنے اور ان سے ٹائم لینے کی ذمہ داری ہم لیتے ہیں۔ وزیراعلیٰ اگر اس مقصد کے لیے وقت نکال سکیں، تو ان لوگوں کے ساتھ میٹنگ کی جاسکتی ہے اور ان کی تجاویز کی روشنی میں سفارشات تیار کرکے سوات کے مسائل بھی حل کیے جاسکتے ہیں اور نوجوانوں کو روزگار کے مواقع مہیا کرکے ان کی صلاحیتوں کو ملک و قوم کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اگر نیک نیتی اور خلوص سے کام لیا جائے، تو وسائل کی کمی کبھی آڑے نہیں آتی، بس عملی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے، اس کے بعد ترقی اور خوشحالی کے بند راستے خود بخود وا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں