شائستہ حکیمکالم

غیر معمولی موسمیاتی تبدیلی اور ہم

ماہرین کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی یا موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان بھی شدید متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان متاثر ہونے والے اولین پانچ ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے۔ اس طرح ماہرین کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ کے علاقے براہِ راست اور بالواسطہ متاثر ہورہے ہیں اور یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا۔ اگر دیکھا جائے، تو ان علاقوں میں سیلابوں کا سلسلہ ہر 12 سال بعد شدید ہوتا تھا، مگر پچھلے 10 سالوں سے ہر سال خیبر پختونخوا اور دیگر صوبوں میں شدید سیلاب آتے ہیں۔ اس طرح گرمیوں میں شدید گرمی اور سردیوں میں شدید سردی پڑتی ہے۔
پچھلے سال سوات کے پہاڑی علاقوں میں بارش اور برف باری نہ ہونے کے برابر تھی، جب کہ امسال برف باری اتنی زیادہ ہوئی ہے، کہ جولائی کے مہینے میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ اس طرح کالام اور چترال کے پہاڑوں پر جولائی کے مہینے میں بھی برف باری کی اطلاعات ہیں۔ پاکستان میں ڈینگی مچھر بہت کم ہوا کرتے تھے، مگر پچھلے تین چار سالوں میں ان میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ سوات اور پشاور میں ڈینگی مچھر کے کاٹنے سے سیکڑو ں افراد جاں بحق جب کہ ہزاروں کی تعدا د میں متاثر ہوئے ہیں۔ سوات جیسے پُرفضا علاقے میں ڈینگی اور دیگر مچھروں کا ہونا انتہائی تشویشناک صورتحال سمجھی جارہی ہے۔ اس طرح کئی سرد علاقوں میں گرمی اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہاں پر ملیریا جیسے مچھربھی پیدا ہورہے ہیں۔ جنت نظیر سوات، ٹراؤٹ اور دیگر لذیز مچھلیوں کے لیے کافی مشہور ہے۔ اگریہ صورتحال برقرار رہی، توان مچھلیوں کا مستقبل بھی تاریک ہے۔
قارئین، اگر دیکھا جائے تو 2010ء میں جو شدید سیلاب آیا تھا اور تباہی مچائی تھی اس میں میں اگر ایک طرف کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، تو اس کے ساتھ ساتھ اربوں روپے کی املاک اور انفراسٹرکچر بھی تباہ ہوا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ہر سال سیلاب کے خطرے کی گھنٹی بجائی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق موسمی تغیرات کی بڑی وجہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انڈسٹریز میں اضافہ بھی موحولیاتی تبدیلی کی بڑی وجہ بتائی جاتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں چائینہ اور انڈیا فضائی آلودگی پھیلا نے میں سب سے بڑا کردار ادا کررہے ہیں۔ان تبدیلیوں کی وجہ سے صاف پانی میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ زیرِ زمین پانی کی سطح مسلسل نیچے جا رہی ہے۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ آئندہ پچاس سالوں میں پانی کے موجودہ ذخائر میں 75 فی صد تک کمی ہوجائے گی۔ صاف پانی کے لیے لوگ اور ممالک جھگڑے پر مجبور ہوں گے۔ اس خطرناک صورتحال کا مقابلہ ہنگامی بنیادوں پر کرنے کی ضرورت ہے، جس کے لیے حکومتوں اور عوام نے مل کر حل نکالنا ہے۔ اس کا واحد حل جنگلات میں اضافہ کرنا، مزید صاف پانی کے ذخیرہ گاہوں کو بنانا اور موجودہ پانی کو بچانے کے لیے ٹھوس حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ اپنی آئندہ نسلوں کے بہتر مستقبل اور انہیں مشکلات سے بچانے کے لیے اب وقت ہے کہ موسمی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لیے ہر کوئی اپنا کردار ادا کرے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں