کالممحمد اعزاز خان

تاریخی قلعہ راجا گیرا

پاکستان کے آثار قدیمہ میں ”راجا گیرا قلعہ“ کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے۔ ایک تو یہ کہ یہ سوات جیسی پُرفضا وادی میں واقع ہے۔ دوسرا اس تک رسائی بھی آسانی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ماہرینِ آثار قدیمہ کے مطابق راجا گیرا کے قلعہ کو ساتویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ 10ویں صدی میں سلطان محمود غزنوی کی فوج نے اس پر حملہ کیا اور راجا گیرا کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی دوران میں راجا جان بچانے میں کامیاب ہوا۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ راجا گیرا شمالی علاقوں (چترال) کی طرف بھاگ گیا تھا۔
قلعہ کے حوالہ سے ماہرینِ آثار قدیمہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ نو منزلوں پر مشتمل ایک بہت بڑا محل تھا، جس کے چاروں طرف موٹی دیواریں تھیں۔ قلعہ کے گردا گرد دیوارِ چین کی طرح ایک بہت بڑی دیوار تعمیر کی گئی تھی جس کے آثار آج بھی پہاڑ کی چوٹی پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ نیز مختلف مقامات پر واچ ٹاؤرز تھے جن کے ابھی آثار ہی باقی ہیں۔
ایک ٹکٹ میں دو مزے کے مصداق تاریخی سلطان محمودِ غزنوی مسجد بھی قلعے سے نیچے واقع ہے۔ یہ شمالی پاکستان کی سب سے پرانی مسجد ہے۔ 440 ہجری (1048-49ء) میں تعمیر ہوا۔ وہاں موجود بورڈ پر لکھا ہے کہ 1984ء میں مسجد کے احاطے سے ایک کتبہ دریافت ہوا جس پر رقم تھا کہ محمودِ غزنوی نے اپنے بھتیجے حاکم منصور کو مسجد کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ حاکم منصور نے اپنے سپہ سالار نوشگین کی زیرِ نگرانی مسجد کی تعمیر کروائی۔
قارئین، مَیں نے اپنے استادِ محترم جناب امجد علی سحابؔ جو اس پر ایک تحریر بھی مختلف نشریاتی اداروں کے لکھ چکے ہیں، سے سنا کہ 10ویں صدی سے پہلے مذکورہ مسجد ایک خانقاہ تھی، لیکن فتح کے بعد اسے مسجد کا درجہ دیا گیا۔
مسجد کا جائزہ لیا جائے تا پتا چلتا ہے کہ اس کے درمیان پانی کا ایک حوض موجود ہے جہاں کبھی وضو کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ مسجد کے ہال میں مہراب نمایاں نظر آرہا ہے۔ اس کو آثارِ قدیمہ کے اتالوی ماہرین نے 1985ء میں دریافت کیا تھا۔ اس قلعے کو پانی کی فراہمی کا ایک حیرت انگیز نظام موجود تھا جس کے بارے میں ڈھیر ساری فرضی کہانیاں مشہور ہیں۔ کیوں کہ قلعہ پہاڑ کی چوٹی پر ہے، تو ایک فرضی کہانی کے مطابق پہاڑ کا دامن اس وقت پانی سے اٹا پڑا رہتا تھا، جہاں سے ایک خاص تکنیک کے ذریعے ایک برتن بھر جاتا اور وہ الٹ کر دوسرے میں پانی بھر دیتا، اس طرح دوسرے سے تیسرا، تیسرے سے چوتھا، وعلی ہذاالقیاس۔ یوں پانی قلعے تک پہنچ جاتا۔
قارئین، ہم نے اپنی ہائیک کا آغاز شگئی سیدو شریف سے کیا۔ ہمارا گروپ 21 افراد پر مشتمل تھا۔ ہم شگئی پہاڑ کی چوٹی کو سر کرتے ہوئے گیرا پہاڑی تک پہنچ گئے، جس پر قلعے کا ایک برج (واچ ٹاؤر) ہے جہاں سے دشمن پر نظر رکھی جاتی تھی۔ ایسے ڈھیر سارے برج مختلف پوزیشنوں پر نظر آتے ہیں، جس کو قلعے کے دیوار نے ایک دوسرے کے ساتھ ملایا ہوا ہے۔ اب اس کے صرف آثار ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ہم گیرا پہاڑ کی چوٹی سے نیچے قلعہ تک پہنچے۔ پھر وہاں سے سلطان محمودِ غزنوی مسجد میں اتر گئے۔
قارئین، اس چھوٹی سی ہائیک کی خوبصورتی یہ ہے کہ پہاڑ کی چوٹی سے مینگورہ، سیدو شریف، شگئی، اوڈیگرام، قمبر، رحیم آباد اور پورے علاقہ کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ ہائیک تھوڑی سی مشکل بھی ہے۔ کیوں کہ پورے راستے میں پانی کا کوئی انتظام نہیں۔ یہ تقریبا تین تا چار گھنٹوں پر مشتمل ایک صبر آزما مسافت ہے۔ مگر تاریخی، معلوماتی، دلچسپ اور خوبصورت ہائیک ہے۔ آخر میں فلک سیر ٹریکنگ کلب کے تمام ممبرز نے سلطان محمودِ غزنوی مسجد کے احاطے میں سیاحوں کی پھیلائی ہوئی گندگی (پلاسٹک شاپر، ریپر، بوتل وغیرہ) ٹھکانے لگائے اور یوں پیغام دیا کہ آنے والے اپنی گندگی دور کریں، تاکہ دوسروں کو صاف ماحول میسر آسکے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں