زبیر توروالیکالم

اپنی شناخت کیسے تلاشی جائے؟

جن قوموں سے ان کی تاریخی یادداشت چھین لی جاتی ہے، اور ان کو زیر کرنے والا ان کو ایک نئی یادداشت دینے کی کوشش کرتا ہے، تو یہ قوم محکوم ہوجاتی ہے۔ پھر محکومی کے آغاز میں ایک یا دو نسلوں کے بعد یہ قوم اپنی یادداشت مکمل طور پر کھو دیتی ہے۔ وہ وہی شناخت، وہی زبان، وہی کلچر، وہی طور طریقے اور وہی سماجی نظام اپنانے لگتی ہے، جو اُن کو زیر کرنے والوں نے دی ہو۔
ایسا ہر دور میں ہوا ہے اور یہ برطانوی، فرانسیسی یا پرتگیزی نو آبادیت اسی تاریخی عمل کے انتہائی نکتے ہیں۔ شمالی پاکستان میں بستی قوموں کے ساتھ یہ عمل دسویں صدی میں زور و شور سے جاری رہا۔ اس کا نکتہئ عروج سولہویں صدی رہی، اور اگلی ایک آدھ صدی میں یہاں بسنے والی قوموں کی تاریخی یادداشتیں ختم ہوگئیں۔ ان یادداشتوں میں اب اگر کوئی چیز باقی بچی ہے، تو وہ ان کی زبانیں ہے، جو مکمل طور پر زبانی یعنی بولیاں رہ گئی ہیں۔ مگر اس زبانی ادب اور تاریخ کے کچھ حصے سینہ بہ سینہ دوسری نسلوں تک منتقل ہوتے رہے جس کو جدید علوم نے ایک کمتر نام ”لوک ادب“ یا ورثہ (فوکلور) کا نام دیا۔
اگر آپ نے اپنی ثقافتی شناخت کو کھوجنا ہے، تو اس لوک ادب اور ورثہ پر تحقیق کریں۔ جھٹ سے کسی چیز کو جھٹلانا یا اپنے تعصب پر مبنی کوئی نظریہ گھڑنا مناسب عمل نہیں۔ اس سے چند لوگوں کو گمراہ تو کیا جاسکتا ہے، لیکن مختصر وقت تک اور وہ بھی ایک بھیانک نقصان پر منتج ہوتا ہے۔ ہاں، یہ بات بھی پلو باندھ لیں کہ کسی ایک شناخت پر اَڑنا نفرتیں پیدا کرتا ہے، اور اس سے انسانوں کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ ہٹلر ایک شناخت پر اِترایا اور دنیا کا انجام ہم سب نے دیکھ لیا۔ آج کل جرمنی میں خود کو آریہ کہو، تو جرمنیوں کا ردعمل شدید ہوتا ہے۔
شناخت کا عمل زماں و مکاں یعنی “Temporal and territorial” دونوں سے نبرزآزما ہوتا ہے۔ اس کا تعلق فرد کی نفسیات، شخصیت اور سماجی و سیاسی عوامل سے بھی گہرا ہوتا ہے۔
ہندوکش ہو یا قراقرم و پامیر یا ہمالیہ، سندھ کا صحرا ہو یا اسٹریلیا کی پہاڑیاں، امریکیوں کی قدیم آبادیاں ہوں، یا ہندوستان کا جنوب، افغانستان کا بدخشاں ہو یا درہ نور کی وادیاں، غرض سب جگہ مقامی لوگ خود کو قوم کہتے ہیں۔ برادری، ایتھنی، قبائل(Community, ethnie, tribes) وغیرہ الفاظ نوآبادیاتی مطالعات کی اصطلاحات ہیں۔
متحدہ ہندوستان میں ایسے مطالعات نے قومیت کی بنیاد، قومیت کے فقط ایک ذریعہ ”عقیدے“ پر رکھ کر اس کا بیڑا غرق کر دیا۔ اس دو قومی نظریے نے دوسری قوموں کے وجود سے انکار کردیا، اور یوں قومیت کی جنگ ہنوز جاری ہے۔ نوآبادیاتی مطالعات میں قوم اور ریاست کا نظریہ پیش کیا گیا کہ اس یورپی سیاسی نظریے میں قوم ریاست کے بغیر نہیں بن سکتی۔ وہاں دو قومیں وجود میں لائی گئیں۔ ایک قوم نے کہا، ہم قوم ہیں۔ اب ہمیں ریاست کی ضرورت ہے۔ مگر حالات کی ستم ظریفی دیکھیں جب ریاست مل گئی، تو گذشتہ 72 سالوں سے یہی ریاست ایک قوم کی تلاش میں ہے، اور اس کو یہ قوم نہیں مل رہی۔ بلکہ اسی قوم کا ایک اکثریتی حصہ الگ بھی ہوا۔ قوم سازی کے اسی منصوبے کے لیے ایک دیگر یعنی دشمن کو تراشا گیا۔ ثقافتی و تاریخی روایات کو غیر فطری طور پر سر سید احمد خان اور سید احمد سرہندی کے زمانے سے پیچھے جانے سے روک دیا گیا۔ ایک قوم بنانے کے اس غیر فطری منصوبے نے ایک ایسی تعلیم ٹھونسنے کی کوشش کی کہ جس سے یہاں بسنے والوں کی تاریخی یادداشتیں جو مہرگڑھ، مہنجوداڑو، گندھارا اور ہڑپہ سے جڑی تھیں، کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔ ایسے میں ہم جیسی چھوٹی قوموں کو معلق چھوڑ دیا گیا اور ہم ہنوز ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ہیں کہ ہماری شناخت کیا ہے؟ کسی نے ایک آدھ کتاب پڑھی اور اس سے نتائج اخذ کیے۔ کسی نے سرے سے کتاب ہی نہیں پڑھی، اور اس پر اکتفا کیا کہ ہم خود کو کیا کہتے ہیں۔
کسی قوم پر اپنی مرضی کی کوئی شناخت ٹھونسنے سے بہتر ہے کہ اس قوم کو علمی، معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر مضبوط کیا جائے۔ جب اسے یہ مضبوطی میسر ہو تو وہ خود کو کوئی شناخت دینے اور پھر اسے اپنے مجموعی فہم و فراست کے ذریعے قائم رکھ سکے گی اور ساتھ اس کے مضر اثرات سے خود کو بچانے کی طاقت بھی حاصل کرسکے گی۔ محض نعروں اور کھوکھلے نظریات سازی سے قوم طاقت ور نہیں بن سکتی، ورنہ پاکستان کی یہ حالت نہ ہوتی۔
شناخت پر تحقیق و فکر ہونی چاہیے۔ اپنے لوک ادب و ورثہ پر تحقیق ہونی چاہیے۔ شناخت کی تلاش کرنی چاہیے لیکن ساتھ یہ بھی ذہین میں رکھنا ضروری ہے کہ شناخت کوئی ساکت چیز نہیں کہ ایک جگہ ٹھہر جائے۔ ہم ایک ”کثیرالشناختی“ دور میں رہ رہے ہیں۔ ایک فرد کی شناخت کئی حوالوں سے ہوسکتی ہے۔ کسی ایک شناخت پر زور دینا بقائے باہمی کے لیے زہر ثابت ہوتا ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں