سوات (باخبر سوات ڈاٹ کام) خیبر پختون خوا کے بالائی علاقوں میں برف باری کے بعد سردی کی شدت میں اضافہ سے انگیٹھیوں کے استعمال میں اضافہ ہوگیا۔ ملاکنڈ ڈویژن کے بالائی علاقوں سوات، دیر، چترال، باجوڑ وغیرہ، ہزارہ ڈویژن کے اضلاع مانسہرہ، بٹگرام، کوہستان، سابق قبائلی اضلاع کے بالائی علاقوں میں بھی سردی کی شدت میں اضافہ اور درجہ حرارت نقطہ انجماد سے گرنے کے بعد انگیٹھیوں کے استعمال میں اضافہ ہو جاتا ہے، جس کے بعد بالائی علاقوں کے لوگ ان کا استعمال شروع کر دیتے ہیں۔ لوہے کی ایک خاص چادر سے یہ انگیٹھیاں مقامی لوہار تیار کرتے ہیں، جن کی قیمت پانچ سو روپے سے ایک ہزار تک ہوتی ہے۔ ان سے دھواں نکالنے کے لیے بھی لوہے کی چادر کا پائپ استعمال کیا جاتا ہے، جس کی قیمت پائپ کی لمبائی کے حساب سے ہوتی ہے۔ بالائی اور برفانی علاقوں میں اکثر گھر کے ایک کمرہ کو انگیٹھی کے لئے مخصوص کیا جاتا ہے، جہاں اس کی تپش سے اہلِ خانہ گرم بھی ہوتے ہیں اور اس پر روٹی اور کھانا بھی بنایا جاتا ہے۔ ان انگیٹھیوں میں خشک لکڑی کا استعمال ہوتا ہے اور لوہے کی چادر کی وجہ سے اس کی تپش بجلی اور گیس کے عام ہیٹر سے زیادہ ہوتی ہے۔ لوہے سے بنی یہ انگیٹھیاں لکڑی کی بچت کے لئے بھی استعمال ہوتی ہیں۔اس میں آگ جلانے کے بعد دس سے پندرہ منٹ میں کمرہ گرم ہوجاتا ہے۔ اس کی مخصوص تپش سے روٹی، کھانے اور چائے کی لذت بھی عام ہیٹروں سے مختلف ہوتی ہے۔ کیوں کہ یہ مخصوص تپش (دم پوخ) کی طرز پر پکا ئی جاتی ہے۔ ان انگیٹھیوں میں سوختی لکڑی یا کوئلہ کا استعمال کیا جاتا ہے جو گیس اور بجلی ہیٹر کے مقابلے میں سستا ایندھن ہے۔ خیبر پختون خواہ کے سرد شہری علاقوں میں بھی ان انگیٹھیوں (بخاروں) کا استعما ل کیا جاتا ہے۔ بعض شہری علاقوں جہاں سوئی گیس یا دیگر سہولیات میسر ہوں، وہاں بھی لوگ ایک عرصہ سے حجروں میں ”بخارا“ میں لکڑیاں جلا کر اس کی مخصوص تپش سے محظوظ ہوتے ہیں۔ بخارا انگیٹھی بھی مقامی لوہار تیار کرتے ہیں جس کی لمبائی عام انگیٹھی سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس سے دھواں نکالنے کے لئے بھی پائپ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ بخارا کے اوپر والے حصے میں لوہے کا ڈھکن بنایا جاتا ہے، جس کو بخارا سے ہٹانے کے بعد اس پر بھی چائے یا کھانا پکایا جاتا ہے۔ مینگورہ شہر کے علاقہ حیات آباد کے ایک حجرہ میں بخارا کی تپش سے گرم ہونے والے ڈاکٹر فواد قیوم نے باخبر سوات ڈاٹ کام کو بتایا کہ بخارا اور عام گیس کی ہیٹر کی تپش میں بہت فرق ہے۔ بخارا میں لکڑی جلانے سے حجرہ جلد گرم ہوجا تا ہے اور گیس کی نسبت سے سر میں درد وغیرہ نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ حجرہ میں بخارا کی گرمائش کے ساتھ دوستوں کے ساتھ گپ شپ بھی لگتی ہے، جس کی وجہ سرد موسم میں گرمائش اور گپ شپ کا الگ مزہ ہوتا ہے۔ خیبر پختون خوا میں سوختنی لکڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے لوگ اب مہنگی لکڑیاں خریدنے پر مجبور ہیں۔ پھلوں کے درختوں والے باغات رکھنے والے افراد جب درختوں سے شاخ تراشی کرتے ہیں، تو اس لکڑی کو جمع کرکے موسم سرما میں انگیٹھی یا بخارا میں جلانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ایک حجرہ کے مالک لطیف خان نے باخبر سوات ڈاٹ کام کو بتایا کہ پہلے شیشم اور مقامی طور پر بنج کہلائی جانے والی لکڑی بازار میں آسانی سے مل جاتی تھی۔ جب وہ ہم استعمال کرتے تھے، تو لکڑی جلنے کے بعد اس کے انگارے بھی ایک گھنٹے تک تپش دیتے تھے۔ لیکن آج کل وہ لکڑی نہیں ملتی جس کی وجہ سے اب ہم ہر قسم کی لکڑی موسم گرما میں سستے داموں خرید کر سٹور کر لیتے ہیں اور موسم سرما میں پھر انگیٹھی یا بخارا میں جلاتے ہیں۔ انگیٹھیاں بنانے والے ایک دکان دار خالد خان نے باخبر سوات ڈاٹ کام کو بتایا کہ سال کے بارہ مہینے وہ یہ انگیٹھیاں اور بخارے تیار کرتے ہیں۔ موسم گرما میں بالائی علاقوں کے دکان دار ان انگیٹھیوں کو تھوک کے حساب سے سستے داموں خرید کر سٹور کر لیتے ہیں۔ موسم سرما کے آغاز پر پھر مہنگے یا مارکیٹ ریٹ کے مطابق فروخت کرتے ہیں۔ موسم سرما میں پھر ان کی قیمتیں بڑھ جاتی ہے۔ خالد خان کے مطابق ایک سے دو سال پہلے تک ان کی قیمتیں کم تھیں لیکن ڈالر کی قیمت میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے اب ان میں استعمال ہونے والا سامان خاص کر لوہے کی چادر کی قیمت میں اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے ان انگیٹھیوں اور بخارا کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ لوہے کی چادر سے انگیٹھیاں بنانے والے کاریگروں نے اب ایسی انگیٹھیاں تیار کرنا شروع کی ہیں، جس سے کمرہ گرم، کھانا پکانے کے ساتھ پانی بھی گرم ہوتا ہے۔ کاریگروں نے اب نئی ٹیکنالوجی سے انگیٹھیاں بنانا شروع کیا ہے، جس میں آگ جلانے کے بعد کمرہ گرم ہوتا ہے۔ اس پر کھانا تیار کیا جاتا ہے اور دھواں نکالنے والے پائپ کے ساتھ انہوں نے پانی کا ایک ڈرم بھی لگانا شروع کیا ہے جو کم وقت میں گیزر کی طرح پانی بھی گرم کرتا ہے جس کی وجہ سے بالائی علاقوں کے لوگوں کی مشکل آسان ہوگئی ہے۔ چترال کے دور دراز پہاڑی علاقہ واخان میں لوگوں نے سردی سے بچنے کے لئے انگیٹھیوں کی جگہ سردی سے بچنے کے لئے مقامی تجر بہ کا استعمال کیا ہے۔ مؤرخ اور ادیب پرویش شاہین نے باخبر سوات ڈاٹ کام کو بتایا کہ ضلع چترال کے علاقہ واخان جس کو چترال سے چار دن کا پیدل راستہ ہے، یہ علاقہ انتہائی سرد ہے۔ وہاں کے اہل علاقہ نے سردی سے بچنے کے لئے گھروں کی تعمیر میں پہلے زیر زمین یا گراونڈ فلور پر ایک کمرہ تیار کرتے ہیں۔ اس کے اوپر گھر تعمیر کرتے ہیں۔ مٹی سے بنے اس زیرِ زمین کمرے میں وہ موسم سرما میں آگ جلاتے ہیں۔ مختلف قسم کی سوختی لکڑیاں یا بھینس گائے کے گوبر سے بنائے گئے اوپلے ڈالتے ہیں جس کی وجہ سے اوپر تمام گھر شدید برف باری میں گرم رہتا ہے۔ پرویش شاہین کے مطابق انہوں نے اس طرح کے گھر افغانستان کے صوبہ بدخشان کے پہاڑی علاقوں میں بھی دیکھا ہے۔
سردی کی شدت میں اضافہ کے ساتھ انگیٹھیوں کے استعمال میں بھی اضافہ
