عبدالودودکالم

سکولوں کی بندش، بچوں کا مستقبل کیا ہوگا؟

حکومت نے ملک بھر کے تعلیمی ادارے 15 ستمبر تک بند رکھنے کا اعلان کیا ہے، جب کہ ملک بھر میں زندگی معمول پر ہے۔ بازار، ریسٹورنٹ، دفاتر، کھیل کے میدان بلکہ سب کچھ کھلے ہیں، اور تعلیمی اداروں بند ہیں۔ ہر قسم کی سرگرمی ٹیوشن، کوچنگ اکیڈمیوں وغیرہ پر پابندی ہے۔ ملاکنڈ ڈویژن کے تعلیمی ادارے ”ونٹر زون“ ہونے کی وجہ سے 23 دسمبر 2019ء سے بند ہیں۔ یہاں کے طلبہ و طالبات کا بہت بڑا نقصان ہوچکا ہے۔ معلوم نہیں حکومت کے لیے کرونا صورتحال کب واضح ہوتی ہے، اور وہ ادارے کھلنے کا اعلان کب کرتے ہیں؟ لیکن موجودہ لاک ڈاؤن سے ملاکنڈ ڈویژن کا تعلیمی نظام،طلبہ و طالبات اور نوجوان نسل بہت متاثر ہے۔
دوسری طرف والدین بھی پریشان ہیں۔ کیوں کہ بچوں کے لیے اور کوئی مصروفیت نہیں۔ باہر کے ماحول میں بچے اخلاقی طور پر بگڑ رہے ہیں۔ دن بھر کھیل کود، وڈیوز گیم،ڈرامے اور فلمیں دیکھنے میں مصروف ہیں۔ کیوں کہ دینی مدارس اور سکول دونوں بند ہیں۔
اس تمام تر صورتحال میں حکومت کے ساتھ بچوں کے اخلاق وعادات اور تربیت کے لئے کوئی منصوبہ ہے اور نہ اس حوالے سے وہ سنجیدہ ہی ہے۔ اگر باہر ممالک میں تعلیمی ادارے بند ہیں، تو وہاں پر حکومت کے ساتھ باقاعدہ ایک منصوبہ موجود ہے۔ وہ آن لائن تعلیم کے ذریعے بچوں کی پڑھائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اب تو پوری دنیا میں زیادہ متاثر ہونے والے ممالک نے بھی ایس او پیز کے ساتھ تعلیمی ادارے کھول رکھے ہیں۔
اس طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ معاشرے میں خیر کے چشمے تب پھوٹتے ہیں، جب وہاں کی نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت کو اہمیت دی جارہی ہو، حکومت کے ساتھ نوجوان نسل (طلبہ و طالبات) کی تربیت کا باقاعدہ منصوبہ موجود ہو، میڈیا حکومت کے کنٹرول میں ہو اور میڈیا پر تخریبی نہیں بلکہ تعمیری پروگرام نشر ہوتے ہوں۔
دوسری بات یہ کہ پاکستان میں کرونا سے وہ نقصان ممکن نہیں، اور اب تک کی رپورٹس کے مطابق ہمارا ملک باقی ماندہ دنیا کی طرح کرونا سے متاثر نہیں ہے۔ اس لیے ان حالات میں اداروں کو بند رکھنا دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہے۔ اب جب کہ حکومت بھی تعلیمی اداروں کی بندش کی تاریخوں میں توسیع دے رہی ہے، اور 15 ستمبر کے بعد بھی حکومت نے سخت ایس او پیز کے ساتھ تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ اب حکومت کے وہ سخت ”ایس او پیز“ کیا ہوں گی؟ کیوں کہ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح کے ”ایس او پیز“ ہوں گی۔ یہاں ایک سوال سر اٹھاتا ہے کہ آیا ہمارے ادارے بین الاقوامی معیار کے ہیں؟
اب موجودہ حالات میں سب سے بڑی ذمہ داری ملاکنڈ ڈویژن میں موجود ہر سطح کے صحافی حضرات کی بن رہی ہے کہ وہ سکولز کھلنے کے حوالے سے کھل کر لکھیں۔ باقاعدہ اپنے یوٹیوب چینل اور سوشل میڈیا پیجز سے سکولز کھلنے کا مطالبہ کریں۔ کیوں کہ اس قوم کے بچوں کی تعلیم و تربیت ریاست کی اولین زمہ داری ہے۔
دوسری بات یہ کہ حکومت سکولوں کے لیے زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر ”ایس او پیز“ بنائے اور ان کے مطابق سکول کھولیں۔
موجودہ حالات میں صحافی برداری اور پوری قوم پر معمارانِ قوم (پرائیویٹ سکولز ٹیچرز) اور پرائیویٹ سکولز مینجمنٹ کے لیے بھی آواز اٹھائیں۔ کیوں کہ ہمارے معاشرے میں جو رعنائی، ٹیلنٹ اور خوبصورتی ہے، یہ استاد کے دم قدم سے ہے۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ملاکنڈ ڈویژن میں پرائیویٹ سکولوں کا بہت اہم کردار ہے۔ پرائیویٹ سکول بچوں کی فیس ادائیگی ہی سے چلتے ہیں۔ موجودہ حالات میں یہ تعلیمی ادارے بند ہیں، جب سکول بند ہیں، فیس کی ادائیگی بھی بند ہے اور ملاکنڈ ڈویژن کے 99 فی صد ادارے ماہانہ فیس سے ہی اپنے اخراجات پورے کرتے ہیں، تو اداروں کی بندش کی صورت اور فیس کی عدم ادائیگی کی وجہ سے پرائیویٹ سکولز کے ٹیچرز اور سٹاف کی تنخواہیں بھی بند ہیں۔ ان مخدوش حالات میں پرائیویٹ سکولز کے ٹیچر، نان ٹیچنگ اسٹاف اور مینجمنٹ کو اکیلا چھوڑنا اور ان کے لیے آواز بلند نہ کرنا ملاکنڈ ڈویژن کے ہزاروں گھرانوں سے ان کی روزی روٹی چھیننے کے مترادف تصور ہوگا۔
قارئین، عرض ہے کہ صحافی حضرات، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ، کالم نگار، سوشل ورکز، علما، خطبا، سیاسی ورکز اور والدین سب آگے آئیں۔ بچوں کے مستقبل کو تاریک ہونے سے بچائیں۔ سکول بند رہنے کے نقصان سے حکومت کو آگاہ کریں، اور انتظامیہ کو مجبور کیا جائے، تاکہ وہ سکول کھول دیں۔ پرائیویٹ سکولوں میں پڑھانے والے ٹیچرز کے معاشی قتل عام کو روکیں۔ موجودہ حالات میں پرائیویٹ سکولز کو مالی سپورٹ دینا حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے۔ یہ مطالبہ ہم سب کی ذمہ داری بھی ہے۔ کیوں کہ روزگار دینا حکومت کا کام ہے اور ہر شہری کو تحفظ دینا بھی ریاست کی زمہ داری ہی ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں