اتوار کا دن تھا۔ کسی کو بھی خبر نہیں تھی کہ 10، 12 ممالک کے سفیر سوات آرہے ہیں۔ سوات میں کسی محکمے کا سیکرٹری بھی آتا ہے، تو چند دن پہلے ہی صحافیوں کو وٹس ایپ یا ای میل پر دعوت نامے ملنا شروع ہوجاتے ہیں۔
حسبِ معمول دن گزارنے کے بعد دفتر پہنچے، تو شام کو خبر ملی کہ جہان آباد ملم جبہ روڈ پر پولیس موبائل پر دھماکا خیز مواد پھٹنے سے موبائل میں سوار 4 پولیس اہل کار زخمی ہوئے ہیں۔ چند روز قبل با خبر اداروں نے خبر دی تھی کہ سوات میں جن دہشت گردوں کو لایا گیا تھا، اُن کو واپس کا ٹلنگ اور ایلم منتقل کیا جا رہا ہے۔
پولیس موبائل پر بم دھماکے کی خبر سن کر تمام نیوز چینلوں سے وابستہ صحافیوں نے علاقے کے امن کی خاطر ’’نارمل خبر‘‘ دی کہ بارودی مواد پھٹنے سے 4 پولیس اہل کار زخمی ہوئے ہیں اور پولیس وین کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔
کچھ دیر بعد بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی ’’رائٹرز‘‘ (Reuters) کے پلیٹ فارم سے خبر نشر ہوئی کہ ملم جبہ روڈ پر 12 ممالک کے سفیروں کی گاڑی کو بم سے اُڑانے کی کوشش میں پولیس وین نشانہ بنا اور تمام سفیر محفوظ رہے۔
اس خبر رساں ایجنسی نے ایک اعلا پولیس آفیسر کا نام لے کر اُن سے فون پر بات کرکے اس خبر کی تصدیق بھی کی۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی کے نمایندے نے مجھ سے رابطہ کرکے اس خبر کی تصدیق کرنا چاہی، تو مَیں نے نفی میں جواب دیا۔
دفتر میں ساتھ بیٹھے ڈیلی ڈان کے رپورٹر دوست فضل خالق کو مَیں نے سفیروں والی خبر کے بارے میں بتایا، تو اُنھوں نے ڈی پی اُو کو فون کیا۔ ڈی پی اُو نے فون ’’بزی‘‘ (Busy) کیا، تو فضل خالق نے سوات پولیس کے پی آر اُو کو فون کرکے سفیروں کے بارے میں پوچھا۔ اُنھوں نے سفیروں کی آمد سے کلی طور پر لاعلمی کا اظہار کیا۔
القصہ، عالمی نشریاتوں اداروں پر خبر چلنے کے بعد جیو نیوز کے بیورو چیف ڈاکٹر محبوب علی کی خبر کے مطابق اُن کا ڈی پی اُو سوات سے رابطہ ہوا ہے، جنھوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ سفیروں کے قافلے پر حملہ ہوا ہے، لیکن سفیر محفوظ ہیں۔
قارئین! اب یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ 10، 12 ممالک کے سفیروں کی سوات آمد کی اطلاع صرف پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کو تھی۔ سوات کے باخبر صحافی اور 22 لاکھ عوام کو اس بارے کانوں کان خبر نہیں تھی، تو ’’بم رکھنے والوں‘‘ کو کیسے خبر ہوئی؟
دھماکے کے بعد پولیس کو سفیروں والی خبر چھپانا چاہیے تھی، تاکہ سوات کی بدنامی نہ ہو، لیکن سوات کے صحافیوں کو خبر نہیں اور امریکہ میں نیوز ایجنسی کے رپورٹر کو خبر مل جاتی ہے کہ 12 ممالک کے سفیر سوات گئے تھے اور اُن کے قافلے پر دھماکا ہوا ہے۔ پھر وہ رپورٹر ایک اعلا پولیس آفیسر کو فون کرتا ہے اور وہ آفیسر اس خبر کی مکمل تصدیق کرکے عالمی سطح پر اس خبر کو جنگل کی آگ کی طرح پھیلاتا ہے، جس کے بعد عالمی میڈیا اور پھر پاکستانی میڈیا پر ’’بریکنگ نیوز‘‘ چلتی ہے کہ سوات اتنا خطرناک علاقہ ہے جہاں 10، 12 ممالک کے سفیر بھی محفوظ نہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس دھماکے کو پولیس وین حملے تک محدود رکھا جاتا، تو اتنی بد نامی نہ ہوتی۔ بین الاقوامی میڈیا کو یہ کیوں بتا یا گیا؟
اب جب کسی کو سفیروں کی سوات آمد بارے علم ہی نہ تھا، تو بم رکھنے والوں کو کیسے علم ہوگیا؟
اس پوری بحث سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ ’’جن‘‘ کو سفیروں کی سوات آمدکا علم تھا، ’’بم رکھنے والوں‘‘ کو بھی اُنھوں نے خبر دی ہوگی اور بتایا ہوگا کہ سفیر کس وقت ملم جبہ جائیں گے؟
سوات کے غیور عوام اور پختونوں کو خبر ہو!
متعلقہ خبریں
- کمنٹس
- فیس بک کمنٹس