ڈاکٹر سلطان رومکالم

چرچل کی روئیدادِ سوات (آخری حصہ)

نتیجتاً چرچل نے ایک طرف ہندوستان میں الہ آباد پانیئر کے ایڈیٹر سے اس کے مضامین چھاپنے کی بات کی جس پر اُسے بتایا گیا کہ اُسے کوئی بڑا اعزازیہ نہیں ملے گا۔ دوسری طرف اُس نے انگلستان میں اپنی والدہ لیڈی رینڈالف چرچل سے رابطہ کرکے وہاں پر کسی اخبار سے معاملات طے کرنے کو کہا۔ جس پر اس کی والدہ نے ڈیلی ٹیلی گراف سے معاملہ اس پر طے کیا کہ چرچل کو فی کالم 5 پونڈ ادا کیے جائیں گے۔ اس وقت دوسرا مسئلہ یہ درپیش تھا کہ چرچل کی چھٹی ختم ہونے والی تھی، لہٰذا اُسے ہندوستان کی شمال مغربی سرحد پر جانے سے پہلے اپنے کرنل سے اپنے رجمنٹ سے چھٹی میں توسیع لینا تھی۔ کرنل نے اُسے اجازت دی اور مسٹر چرچل فوج کے حصے کے طور پر نہیں بلکہ ایک جنگی نامہ نگار کی حیثیت سے ملاکنڈ کے لیے روانہ ہوا۔
یاد رہے کہ اس دوران میں ملاکنڈ اور چکدرہ کی جنگ ختم ہوچکی تھی اور ’’بنڈن بلڈ‘‘ کو بارہ ہزار افراد پر مشتمل ملاکنڈ فیلڈ فورس اور اس تعزیری مہم کا سربراہ بنایا گیا تھا جس کا مقصد ملاکنڈ اور چکدرہ کی جنگ میں حصہ لینے والے قبائل کے خلاف تادیبی کارروائی کے طور پر لشکر کشی کرنا تھی۔
جس وقت مسٹر چرچل ملاکنڈ پہنچے، تو ملاکنڈ فیلڈ فورس سوات کی مہم ختم کرکے ملاکنڈ واپس آچکی تھی۔ تاہم ’’بنڈن بلڈ‘‘ بونیر والوں کے خلاف تادیبی کارروائی میں مصروف ہونے کی وجہ سے وہاں موجود نہیں تھے اور پانچ دن بعد واپس آئے۔ اگر چہ ملاقات کے وقت بنڈن نے چرچل کو بولا کہ تم اچھے وقت پر پہنچے ہو، آئندہ چند ہفتوں میں تم لکھنے کے لیے بہت کچھ پاؤگے، لیکن جیسا کہ ذکر ہوا نہ صرف ملاکنڈ اور چکدرہ کی جنگ پہلے ہی ختم ہوچکی تھی بلکہ سوات میں ملاکنڈ فیلڈ فورس کی تعزیری کارروائی بھی ختم ہوچکی تھی۔ خود چرچل کے بیان کے مطابق ملاکنڈ فیلڈ فورس 26 اگست 1897ء کو تھانہ واپس ہوئی اور بالائی سوات میں مہم کو ختم کیا گیا (ملاحظہ ہو چرچل کی کتاب ’’دی ملاکنڈ فیلڈ فورس ‘‘ صفحہ 86)۔
لہٰذا چرچل نہ تو ملاکنڈ اور چکدرہ کی جنگ کے وقت یہاں پر لڑنے والی برطانوی فوج کا حصہ تھا، نہ ملاکنڈ فیلڈ فورس کی سوات میں تعزیری فوجی کارروائی کے دوران میں ہی وہ اس میں شامل تھا۔ حتیٰ کہ پانیئر اور ڈیلی ٹیلی گراف کے جنگی نامہ نگار کے طور پر بھی نہیں۔ وہ ملاکنڈ فیلڈ فورس کے ساتھ بہ حیثیت نامہ نگار باجوڑ اور اتمان خیل کے خلاف تعزیری مہم کے وقت شامل ہوا۔ تاہم بعد میں جب ماموند قبیلہ کے ہاتھوں برطانوی فوج کو شدید جانی نقصان پہنچا، تو اُسے 31ویں پنجاب انفینٹری میں تعینات کیا گیا۔
پس ملاکنڈ اور چکدرہ کی جنگ اور ملاکنڈ فیلڈ فورس کی سوات میں تعزیری کارروائی کی مسٹر چرچل کی کتاب میں درج روئیداد، چشم دید یا عینی گواہ کی روئیداد نہیں بلکہ بعد میں سنی سنائی باتوں اور دیگر ذرائع سے حاصل کردہ معلومات پر مبنی ہے۔ جہاں تک اُس کے چشم دید واقعات کے بیان کا ذکر ہے، اُن میں بھی اُس نے بعد میں ترامیم کی ہیں اور دوسرے مأخذ سے معلومات شامل کی ہیں جس کا اس نے خود اپنی کتاب ’’دی سٹوری آف دی ملاکنڈ فیلڈ فورس‘‘ کے دیباچہ میں ذکر کیا ہے۔
اس طرح نہ صرف یہ چرچل کے ملاکنڈ فیلڈ فورس کے سارے مندرجات، چشم دید واقعات کی روئیداد نہیں اور یہ کہ ملاکنڈ اور چکدرہ کی جنگ اور سوات میں ملاکنڈ فیلڈ فورس کی تعزیری مہم کے مندرجات سارے کے سارے دوسرے مأخذ اور سنی سنائی باتوں پر مبنی ہیں بلکہ چرچل غیر حقیقت پسندانہ اور مبالغہ آمیز منفی باتوں کو تحریر کرنے کا بھی مرتکب ہوا ہے۔
مثال کے طور پر پختونوں کے بارے میں وہ صفحہ 6پر لکھتے ہیں کہ “Their wives and their womankind generally have no position but that of animals. They are freely bought and sold and are not infrequently bartered for rifles. Truth is unknown among them”.
یعنی ’’ان کی بیویاں اور عورت ذات جانوروں جیسی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کی کھل کے خرید و فروخت ہوتی ہے اور بعض اوقات بندوق کے بدلہ میں دی جاتی ہیں۔ سچ کا ان میں نام و نشان تک نہیں۔ ‘‘
یاد رہے کہ اس سے بہت پہلے سترھویں صدی عیسوی میں خوشحال خان خٹک نے اپنی کتاب ’’سوات نامہ‘‘ میں سوات کی عورتوں کے ضمن میں جو باتیں لکھی ہیں، ان سے چرچل کے مغالطوں کی نفی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر خوشحال خان خٹک نے اگر چہ عورتوں کو میراث میں حصہ نہ ملنے اور بھائی کی وفات کے بعد اس کی بیوہ سے اس کی رضامندی حاصل کرنے کو کوئی اہمیت دیے بغیر اس کے دیور کی اس سے شادی کے رواج کی مذمت کی ہے، تاہم اس نے سوات کی عورتوں کی آزادی اور خاندانی امور میں اثر و رسوخ پر سوات کے مردوں پر لعن طعن کی ہے بلکہ دوسرے لفظوں میں انہیں زن مرید گردانا ہے۔
جب کہ میجر راورٹی نے بھی 1862ء میں چھپنے والے سوات سے متعلق اپنے ایک مضمون “An account of Upper and Lower Suwat, and the Kohistan, to the source of the Suwat River, with an account of the tribes inhabiting these valleys.” کے صفحات 274-273اور اپنی کتاب “Notes on Afghanistan and Baluchistan” (جلد اول، شائع شدہ1878ء) کے صفحہ 211 پر سوات کے لوگوں کے بارے میں پائے جانے والے اس تأثر کے ضمن میں کہ وہ آفریدیوں کی طرح اپنی بیویوں کو فروخت کرتے ہیں یا جانوروں یا کسی دوسری قسم کی چیزوں کے تبادلہ میں دیتے ہیں، پر بحث کرتے ہوئے اس پائے جانے والے عام خیال اور تأثر کی مثالوں اور دلائل کے ذریعہ پُرزورا الفاظ میں تردید کی ہے، اور اپنے بیان کو اس فقرہ پر ختم کیا ہے کہ “It, therefore, appears almost impossible that men, who are so much subject to and so obedient to their wives, would venture to sell them, or even dare to make the attempt.” یعنی ’’سوات میں شوہروں کا بیویوں کو بیچنا یا مال کے بدلے میں دینا اس وجہ سے ناممکن معلوم ہوتا ہے کہ ایسے مرد جو اپنی بیویوں کے اتنے تابع دار اور تابع فرمان ہوں، ان بیویوں کے بیچنے کی کبھی حرکت کریں گے یا اس قسم کی کوشش کی جرأت کریں گے۔‘‘
اگر چہ خوشحال خان خٹک اور میجر راورٹی کے سوات کے مردوں کی اپنی بیویوں کے اتنے تابعدار یا زن مرید ہونے کی بات میں بھی مبالغہ پایا جاتا ہے اور صورتحال کبھی بالکل اس طرح نہیں رہی ہے، لیکن سوات میں اس وقت سے ہی بیویوں کا بحیثیت مجموعی ایک اہم مقام اور حیثیت رہی ہے جو کہ دوسرے پختون علاقوں سے بڑی حد تک مختلف ہے۔ لہٰذا یہاں کی صورتحال کا دوسرے علاقوں پر قیاس کرنا صحیح نہیں۔
جب کہ مذہبی طبقہ یا گروہ کے متعلق چرچل کی کتاب کے صفحہ 7 پر یہ بے سروپا بات بھی تحریر ہے کہ “…..and no man’s wife or daughter is safe from them”. ’’اور کسی بھی فرد کی بیوی یا بیٹی ان کی دست برد سے محفوظ نہیں۔‘‘ اگر چہ سوات میں مذہبی طبقہ یا گروہ کا اثر و رسوخ ہمیشہ سے رہا ہے، لیکن اس کی نوعیت بالکل مختلف قسم کی رہی ہے۔ سواتی معاشرہ میں کسی بھی شخص کے اگر غیر عورت سے ناجائز تعلقات سامنے آتے ہیں، خواہ اس کا تعلق مذہبی طبقہ سے ہو یا غیر مذہبی طبقہ سے، تو نہ صرف اس کی عزت و وقار ہی ختم ہوجاتا ہے بلکہ وہ واجب القتل گردانا جاتا ہے۔ اور دوسروں کی عورتوں پر کھلی دست درازی کا تو اس وقت کے قبائلی معاشرہ میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، حتیٰ کہ اب بھی اس طرح کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
افسوس کہ جس طرح 1897ء کی جنگ کے نتیجہ میں چرچل، سوات اور اس کے باشندوں کے متعلق سنی سنائی باتوں اور اپنی خواہشات کی بنیاد پر غیر حقیقت پسندانہ اور مبالغہ آمیز منفی باتوں کو صفحہ قرطاس پر لانے کا مرتکب ہوا ہے، سوات کے 2007ء تا 2009ء کے المیہ کے نتیجے میں بھی سوات، اس کی تاریخ اور باشندوں کے متعلق افسانوی اور رومانوی داستانیں، غیر حقیقت پسندانہ اور کئی حوالوں سے مبالغہ آمیز منفی باتیں اخبارات، رسائل و جرائد، کتابوں اور دوسرے ذرائع ابلاغ کی زینت بنتی جارہی ہیں، جو کسی طور پر مستحسن نہیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں