ڈاکٹر سلطان رومکالم

خوشحال خان خٹک اور سوات 

خوشحال خان خٹک ایک مشہور شاعر اور نثر نگار ہو گزرے ہیں۔ آپ کو ایک جنگجو اور صاحبِ سیف بھی تصور کیا جاتا ہے۔ آپ کا خاندان آپ کے داداد ملک اکوڑ کے وقت سے ہندوستان کے مغلیہ حکمرانوں کا وفادار رہا اور ان کی خاطر اپنے ہی پختون قبائل خصوصاً یوسف زئ اور مندنڑ کے خلاف پوری صلاحیت اور توانائی کے ساتھ برسر پیکار اور لڑتا رہا، جس نے خٹک اور یوسف زئ و مندنڑ قبائل کے بیچ ناچاقی، نفرت اور عداوت پیدا کی۔
1641ء میں اپنے والد شہباز خان کی وفات پر خوشحال خان اس کا جانشین بنا اور مغل شہنشاہ شاہ جہان نے بھی اس کو خٹک قبیلے کی سربراہی اور منصب سے نوازا۔ باپ دادا کی طرح خوشحال خان نے بھی پختون قبائل کے خلاف مغلوں کی حتی الوسع خدمت کرتے ہوئے ساتھ دیا، جس کا آپ نے اپنے اشعار میں کھل کے اعتراف کیا ہے۔ اورنگ زیب کے تخت پر قابض ہونے پہ آپ نے اورنگ زیب کی حکمرانی کو تسلیم کیا اور اس کی بھر پور انداز سے خدمت کرتے ہوئے نہ صرف یوسف زئ و مندنڑ قبائل کے خلاف اس کی خاطر لڑے بلکہ 1659ء میں تیراہ کی لڑائی میں آفریدیوں اور اورکزیوں کے خلاف بھی مغل فوج کا ساتھ دیا۔
تاہم بعد میں خوشحال خان اور مغلوں کے مابین ناچاقی پیدا ہوئی، جو جنوری 1664ء میں خوشحال خان کی قید ہونے پر منتج ہوئی۔ باوجود آپ کے سابقہ یوسف زئ مخالف کردار کے، مشکلات و مصائب کی اس گھڑی میں یوسف زئیوں نے خوشحال خان کا کنبہ مغلوں کے دست برد سے بچانے کی خاطر اپنے علاقے میں لاکر اسے تحفظ فراہم کیا۔
قید کرانے کے باوجود خوشحال خان نے آزاد ہونے پر مغلوں کے خلاف بغاوت نہیں کی اور ان کا وفادار ہی رہا۔ تاہم جب آپ کو دیوار سے لگایا گیا اور آپ کے لیے دوسری کوئی راہ باقی نہ رہی بلکہ یا تو اپنے آپ کو مغلوں کے حوالے کرتے اور یا اپنی ذاتی بقا کی خاطر مغلوں کے خلاف لڑتے (اس لیے کہ خود اس کا بیٹا بہرام خان بھی اپنے قبیلہ کی سرداری کی خاطر اس کا حریف بنا اور اس طرح خوشحال خان کا قبیلہ بھی بٹ گیا) تو خوشحال خان نے مغلوں کے خلاف پہلی بار ہتھیار اٹھایا۔ لہٰذا خوشحال خان کا مغلوں کے خلاف بر سر پیکار ہونا ’’افغان ننگ‘‘ کی خاطر نہیں تھا جیسا کہ آپ نے دعویٰ کیا ہے۔ یہ صرف آپ کی ذاتی بقا کا سوال تھا، جس کی وجہ سے خوشحال خان مغلوں کے خلاف لڑا اور جس کو اس نے ’’افغان ننگ‘‘ کا نام اور رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ یاد رہے کہ جب یوسف زئ و مندنڑ اور آفریدی و اورکزئ مغلوں کے خلاف برسرپیکار تھے، تو خوشحال خان پختونوں کے خلاف خلوصِ دل سے مغلوں کا ہاتھ بٹاتا اور خدمت کرتا رہا۔
اس پس منظر میں، مغل شہنشاہ اورنگ زیب کے زیر عتاب آنے اور ذاتی بقا کی خاطر تگ و دو میں خوشحال خان نے پختونوں کو اورنگ زیب کے خلاف اکسانے اور ورغلانے کی کوشش کی اور سوات کے یوسف زئیوں کی حمایت حاصل کرنے کی خاطر بہ نفس نفیس سوات کا دورہ کیا۔ سوات میں اپنے سات ماہ کے قیام کے دوران میں اس نے سوات کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا اور اس کے ہر پہلو کو جانچا۔ بعد میں اس نے ’’سوات نامہ‘‘ کے نام سے ایک کتاب بھی تحریر کی۔
خوشحال خان نے سوات کے چشموں، سبزہ زاروں، قدرتی حسن، زرخیزی، معطر ہواؤں، ارزانی، شان دار ماضی اور اس طرح کی دوسرے چیزوں کی تعریف و توصیف کی ہے۔ اس نے سوات میں شکار کیے جانے والے مختلف قسم کے پرندوں اور جنگلی جانوروں جیسا کہ شاہین (باز)، چکوروں (زرکے)، موسمی مرغابیوں، جنگلی بھیڑ بکریوں اور ہرنوں پر بحث کی ہے۔ اس نے مچھروں، مکھیوں، کھٹملوں اور بروڑوں کے عام ہونے کا تذکرہ کیا ہے اور یہ بھی تحریر کیا ہے کہ ہر گھر میں گھرانے کے افراد کے برابر کتے ہوتے ہیں اور ان کے صحنوں میں سیکڑوں کی تعداد میں مرغیاں چل پھر رہی ہوتی ہیں۔
خوشحال خان نے سوات کے یوسف زئیوں کی آزادی کو یہ بتاتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ وہ نہ تو کسی کی رعایا ہیں اور نہ کسی کو ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس نے سوات کے قدرتی حسن اور وافر قدرتی وسائل کی تعریف کی ہے۔ تاہم یہ بھی بتایا ہے کہ یوسف زئیوں نے ایسے حسین اور قابل تعریف ملک کو محض چراگاہوں اور گھاس کے میدانوں میں بدل دیا ہے۔ اس نے مروجہ نظام ویش (نظام تقسیم اراضی) کی برائی بیان کی ہے اور اس کی بھی مذمت کی ہے کہ صرف مرد ہی اپنے آبا کی زمین کے وارث بن جاتے ہیں۔ اس نے اس پر بھی شب و ستم کیا ہے کہ کسی فرد کی وفات کے بعد بہت جلد اس کا بھائی اس کی بیوہ سے شادی کرتا ہے اور یہ کہ قتل کا بدلہ لینے میں اصل قاتل کے بجائے خاندان کے بابرکت اور با اثر شخص کو قتل کیا جاتا ہے اور ملا ان سب غلط کاموں اور بے انصافیوں کے حامی ہیں۔
اس نے سوات کے لوگوں کی مذہب کی پاس داری اور ننگ پر سوالیہ نشان لگایا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ لوگ مسلمان ہونے کے دعوے دار تو ہیں، عملی طور پر مذہب کا کم ہی خیال رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ ان میں ’’افغان ننگ‘‘ کا کوئی تصور نہیں۔ بزدل اور کم جری ہونے کی وجہ سے میدانِ جنگ میں جانے اور جرأت کے ساتھ لڑنے سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ اگر چہ لڑائی میں کسی خاص کارکردگی کے حامل نہیں پھر بھی اپنی بہادری کے گن گاتے ہیں۔
خوشحال خان نے سوات میں حکومت اور سرکردہ سربراہ کی عدم موجودگی اور نتیجتاً سوات کی خراب حالت اور تباہ کن صورت حال کی بات بھی کی ہے۔ اس نے مزید دعویٰ کیا ہے کہ اگر چہ یوسف زئی تعداد میں بے شمار ہیں، لیکن ان کی مثال جانوروں کے گلے جیسی ہے۔ اس وجہ سے ان کی تعداد بے معنی ہے۔ مزید یہ کہ سوات کے لوگ گندے اور بدبودار گھروں میں رہائش کرتے ہیں اور اپنے گھروں میں کئی ایک غلہ دان رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے غلہ ذخیرہ کرنے میں یہ ہندوؤں سے بدتر ہیں۔
خوشحال خان نے سوات کے لوگوں کی اس لیے بھی مذمت کی ہے کہ اس کے خیال میں وہ اپنے قول اور وعدوں کی پاس داری نہیں کرتے۔ مزید یہ کہ معمولی فوائد، حقیر مفادات اور غیر اہم مقاصد کے حصول میں لگ جاتے ہیں اور چھوٹی باتوں پر یا تو خوش ہوجاتے ہیں یا ناخوش۔ مزید برآں صرف ذاتی مفاد کی خاطر دوست بناتے ہیں۔ ننگ اور وقار کی قیمت کی پذیرائی نہیں کرتے اور دولت کے پجاری ہیں۔ علاوہ ازیں بیویوں کی بے جا خواہشات اور ناز و نخرے برداشت کرتے ہیں اور وہ جو حکم دیتی ہیں، اس کی تابع داری کرتے ہیں۔ اپنی بیٹیوں کو دولت کی خاطر بیاہتے ہیں، جب کہ ان کے شوہر کے حسب نسب کا بہت کم خیال رکھتے ہیں۔ ان میں خوش اخلاقی اور ادب وقاعدے کا فقدان ہے اور تمام کے تمام عناد سے بھرے، حد سے زیادہ محو بالذات اور خود پسند ہیں۔ بالمشافہ وعدے تو کرتے ہیں، لیکن ان کا پاس نہیں رکھتے اور آسانی سے منھ موڑتے ہیں۔ علاوہ ازیں تمام سال کام میں لگے رہتے ہیں اور کبھی بے کار نہیں بیٹھتے۔ دولت ان کا عقیدہ اور بت ہے اور ہمیشہ سونے چاندی کی چاہت رکھتے ہیں۔ نہ تو خندہ پیشانی سے مہمان کو خوش آمدید کہتے ہیں اور نہ ان کے ہاں الفاظ و انسیت کا تپاک پایا جاتا ہے۔ اگر فریادی کسی مَلَک سے انصاف طلب کرتا ہے، تو مخالف فریق مَلَک کو ایک روپیہ دے کر اس کے فیصلے کو اپنے حق میں کراسکتا ہے اور یہی مَلَک اس روپیہ کی خاطر غریب معصوم کو گناہ گار ہی ثابت کردے گا۔
خوشحال خان کہتا ہے کہ سوات کے لوگ سوجھ بوجھ اور عقل سے کام نہیں لیتے بلکہ سنی سنائی باتوں پر یقین کرتے ہیں۔ غلط عادات و امور میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ بد کار کو صحیح طور سزا نہیں دی جاتی۔ اگر کوئی مکروفریب سے ڈاکٹر بن جائے، تو کوئی بھی اس کے جھوٹ کا پول نہیں کھولے گا اور اگر کوئی عیاری سے عالم یا درویش ہونے کا دعویٰ کرے، تو کوئی بھی اس کی اصلیت معلوم کرنے کی زحمت نہیں کرے گا۔ علاوہ ازیں، تمام مَلَک اور خان گدھوں جیسے بے وقوف ہیں اور ان کے تمام عالم اور شیخ جاہل ہیں۔ ان کے عالم اپنے مذہبی مقام کا دنیاوی فوائد کے لیے استحصال کرتے ہیں، یہ پروا کیے بغیر کہ کیا جائز ہے اور کیا ناجائز؟ خصوصاً میاں نور پر لعن طعن کرتے ہوئے خوشحال خان نے اس کے مذہبی علم اور عقائد پر سوالیہ نشان لگایا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ میاں نور ہی مغلوں کے خلاف سوات میں لشکر اکٹھا کرنے کے آپ کے مشن کی ناکامی کا ذمہ دار تھا۔
(جاری ہے)

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں