جلال الدین یوسف زئیکالم

کانجو پل کی 90 سالہ روداد 

کانجو گاؤں میں راقم کی نوجوانی کا زیادہ تر حصہ گزرا۔ اس گاؤں کے حوالہ سے ڈھیر ساری میٹھی یادوں میں اپنے والدِ محترم بخت بیدار ایڈوکیٹ (مرحوم) کے ساتھ کانجو پُل اور دریائے سوات کے کنارے پیدل مسافت بھی سکونِ قلب کا باعث ہے۔ چوں کہ والدِ محترم وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے، اس لیے اُن کو سیر و تفریح کا موقع کم ہی ملتا تھا۔ شاید اس لیے تقریباً روزانہ کی بنیاد پر اپنے دفتر سے واپسی کے وقت کانجو پُل پر گاڑی پارک کر لیتے اور واک پر روانہ ہوجاتے تھے۔ دریائے سوات کے کنارے اُن کا یہ چلنا اُن کے لیے ایک سستی تفریح تھا، لیکن بدقسمتی سے یہی تفریح اُن کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔ بس صرف اتنا لکھنے کی ہمت اپنے اندر رکھتا ہوں کہ یہ نا گہانی واقعہ 02 جون 1998ء کو پیش آیا۔ آج بھی جب کبھی کانجو پُل پر سے گزر ہوتا ہے، تو بے اختیار آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔
یہ بیس برس پرانی باتیں اُس وقت شدت سے یاد آئیں جب کانجو پل پر لکھنے کے لیے بیٹھ گیا۔ اس پُل کی اہمیت کا اندازہ بہت سے مواقع پر ہوا۔ سوات ملٹری آپریشن کے دوران میں اس پُل کا کرفیو کی وجہ سے بند ہونا اور بعد میں سیلاب کی وجہ سے اس کا بہہ جانا ایک تکلیف دہ عمل تھا۔ ان دونوں مواقع پر متعدد لوگوں کے آنسو بہتے ہوئے دیکھے جو پُل کی بندش کی وجہ سے ایک طرح سے اذیت کا شکار تھے۔
اب اگر 1929ء سے پہلے کے زمانے کا ذکر ہو، جب دریائے سوات پر پُل نہیں بنا تھا، تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اُس وقت لوگوں کو کتنی مشکلات کا سامنا ہوا ہوگا! یہاں یہ لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس پُل کی تعمیر سے پہلے ایک عارضی پُل بنایا گیا تھا، جس کا مقصد اس کی تعمیر میں آسانی پیدا کرنا تھا۔ تاکہ کاریگر حضرات اس پر کھڑے ہوکر ایک کٹھن کام کو احسن طریقے سے پایۂ تکمیل تک پہنچاسکیں۔ اُس عارضی پُل کے متعلق اُس وقت کی انگریز حکومت اپنے اپریل 1928ء کی ہفتہ وار ’’صیغۂ راز والی ڈائری‘‘ میں کچھ اس طرح لکھتی ہے:
“A temporary bridge used as an aid to the construction of the permanent structure over the Swat river, now being built by the Wali at Mingora, was carried away by the flood on 8th April. Five men including the bridge contractor last their lives and sixty were seriously insjured”.
اس ڈائری سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ 8 اپریل 1928ء کو یہ عارضی پل سیلاب کی نذر ہوگیا تھا اور اس میں کنٹریکٹر سمیت پانچ لوگوں کی موت واقع ہوئی تھی۔ اس واقعہ میں 60 افراد کو سخت چوٹیں بھی آئی تھیں۔
اپریل 1929ء میں جب پُل پر کام مکمل ہوچکا، تو باچا صاحب نے نیک پی خیل اور شامیزئی کا ایک جرگہ بلایا اور اس کا باضابطہ افتتاح4 اپریل 1929ء کو کیا۔ اپریل 1929ء میں لکھے گئے اُس ڈائری کے الفاظ ذیل میں نقل کیے جا رہے ہیں:
“On 4the April the wali of Swat after calling in the Nikpi Khle Shamizai jargas formally opened the bridge over the Swat reiver which he has built with the help from the Government at Mingora. The bridge was about 2 hundred feet long built on piles driven some Eleven or Twelve feet into the river bed. It should withstand flood water but logs and timber floating down may cause serious damage to it”.
اس ڈائری سے دیگر باتوں کے علاوہ یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اگر چہ یہ پل اُس وقت کے لحاظ سے کافی پائیدار تھا، لیکن پھر بھی اس کے بعض حصوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ رہتا تھا۔
پروفیسر (ریٹائرڈ) غلام سبحانی صاحب کے مطابق ایک مقامی شاعر نے اس پُل کے کچھ حصوں کے بار بار گرنے کو اپنی شاعری میں مزاحیہ انداز میں موضوعِ بحث بنایا تھا اور کچھ اس طرح لکھا تھا:
پل دے د باچا پہ کال کے دریڑہ زنگنی غواڑی
خوار ئی پختانہ کڑہ دے لا اغہ شان خانی غواڑی
پروفیسر صاحب کے مطابق اس شعر کی بھنک جب باچا صاحب کو پڑ گئی، تو انہوں نے شاعر کو پیش کرنے کا حکم دیا۔ شاعر بھی بلا کا حاضر جواب تھا۔ جوں ہی باچا صاحب کے سامنے حاضری ہوئی، تو شعر کو کچھ اس طرح سنایا۔
پل دے د باچا پہ کال کے دریڑہ زنگنی غواڑی
دا کار دَ وڑو نہ دے دی لہ خہ کرہ زوانی غواڑی
اور یوں تدبر سے کام لے کر موصوف نے اپنی جان چھڑائی۔
محترم فضل رازق شہاب کے مطابق کانجو کے مقام پر پہلا آر سی سی بریج (R.C.C Bridge) والی صاحب نے 1960ء میں بنوایا، لیکن مذکورہ پُل دو تین سالوں کے اندر ہی تیز پانی کی نذر ہوگیا۔ جب مذکورہ پُل اتنی جلدی بہہ گیا، تو ایک انکوائری بنائی گئی، تاکہ ذمہ داروں اور غفلت برتنے والوں کا تعین کیا جاسکے۔ انکوائری مکمل ہونے کے بعد “Pak PWD” کے متعلقہ افسران اور دیگر اہلکاروں کو ذمہ دار گردانا گیا اور چیف انجینئر سمیت کچھ اور اہلکاروں کو نوکری سے فارغ کردیا گیا۔
فضل رازق شہاب صاحب آگے لکھتے ہیں کہ ایوب برج (Ayub Bridge) بھی ریاستِ سوات کے دور میں تعمیر کیا گیا اور تعمیری کام 1964ء میں مکمل ہوا۔ یہ پل کافی چوڑا تھا اور دونوں اطراف سے گاڑیاں اس پر سفر کرسکتی تھیں۔ یہ کافی پائیدار ثابت ہوا تھا اور پانچ دہائیوں تک کار آمد رہا، لیکن 2010ء کے تباہ کن سیلاب میں دیگر پُلوں کی طرح یہ بھی مون سون بارشوں کی نذر ہوگیا۔ موجودہ پل پاک آرمی کے زیرِ نگرانی بنایا گیا اور تا حال ایک بہت بڑی آبادی کی ضروریات کو پورا کررہا ہے۔
آخر میں یہ بتاتا چلوں کہ ریاست سوات کے دور کے قلعوں اور پلوں کی طرزِ تعمیر اور اس میں استعمال ہونے والے میٹریل پر ڈاکٹر لوکا ماریا اولیوری کا مقالہ جو جولائی 1916ء میں شائع ہوا۔ ایک قیمتی تحقیقی کام ہے۔ اُسے پڑھیے اور لطف اُٹھایئے۔
یار زندہ، صحبت باقی!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں