جلال الدین یوسف زئیکالم

سانحہئ مینگورہ (اگست 1937ء)

سوات کی تاریخ سے متعلق کئی ایک ایسے واقعات راقم کے سامنے آئے ہیں جو کہ ابھی تک تاریخ کی کتابوں میں جگہ نہیں پاسکے ہیں۔ یہ واقعات بہت کم لوگوں کے علم میں ہیں۔ اکثریت ان سے بالکل بے خبر ہے۔ ایسے ہی ایک واقعے پر آج لکھ رہا ہوں۔ اُمید ہے کہ پڑھنے والوں کے لیے یہ موضوع نیا ہوگا اور اس میں اُن کی دلچسپی کا سامان بھی ہوگا۔ یہ واقعہ (بلکہ اسے سانحہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا) اگست 1937ء سے تعلق رکھتا ہے۔ مذکورہ واقعے کے متعلق ایک انگریز کیپٹن ”سی جے میسٹ“ کی تحریر پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ پانچ صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ اکتوبر 1938ء کو شائع ہوئی تھی۔
ہوا کچھ یوں کہ اگست 1937ء کو ریاستِ سوات کے مرکزی شہر مینگورہ میں ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی تھی۔ حیران کن امر یہ تھا کہ پورے صوبے میں اس کے کچھ آثار نظر نہیں آئے تھے اور یہ صرف مینگورہ اور اس کے آس پاس کے علاقوں تک محدود تھی۔ انگریز کپتان لکھتے ہیں کہ یہ وبا سوات کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئی تھی، اور اس نے آناً فاناً کئی لوگوں کی جان لی تھی۔ چھے اگست 1937ء کو مینگورہ میں ہلاکتوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور اُسی دن ایک ہی خاندان کے چار افراد لقمہ اجل ہوئے تھے۔ اُس کے اگلے دن یعنی سات اگست کو کل 25کیس سامنے آئے تھے، جن میں سے 15افراد کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔
کیپٹن میسٹ اس وبا کے معلق لکھتے ہیں کہ یہ ہمیشہ باہر سے آتی ہے۔ اس کا مؤجب عام طور پر وہ پیوندہ (Powindah) خاندان ہوتے ہیں جو افغانستان جانے کے لیے ہندوستان کی سرزمین پر سے گزرتے ہیں۔
ریاست کے مرکزی شہر میں ان ہلاکتوں کو دیکھتے ہوئے باچا صاحب (میاں گل عبدالودود) کے کہنے پر انگریز ماہرین کی ایک ٹیم سوات آتی ہے، تاکہ وہ اس جان لیوا بیماری کا سدباب کرسکے۔ یہ ٹیم معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے اپنی کارروائی کا آغاز کرتی ہے اور مقامی لوگوں سے پوچھ گچھ کرتی ہے۔ ابتدائی طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ مہلک بیماری زہریلے پانی کی وجہ سے پھیلی ہے۔ ایک متاثرہ خاندان کے سربراہ بتاتے ہیں کہ وہ عرصہئ دراز سے ایک نالے سے پانی لیتے ہیں جو دریائے سوات سے ہو کر آتا ہے۔ انگریز لکھاری اس نالے کا محلِ وقوع مینگورہ کا شمال مغرب لکھتا ہے۔ اگلے دن یعنی 8 اگست کو مزید 20کیس سامنے آتے ہیں۔ مذکورہ نئے متاثرین بھی یہی بتاتے ہیں کہ انہوں نے بھی اسی نالے سے پانی بھرا ہے۔ جب ان لوگوں سے استفسار کیا جاتا ہے کہ وہ اس مخصوص نالے سے ہی کیوں پانی لیتے ہیں؟ تو وہ جواباً بتاتے ہیں کہ اس نالے کا پانی بہت ٹھنڈا ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اس کو ترجیح دیتے ہیں۔
یہ یاد رہے کہ مذکورہ نالہ دریائے سوات کی ایک چھوٹی سی شاخ تھا۔
کیپٹن سی جے ہیسٹ مزید لکھتے ہیں کہ خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو یہ جان لیوا عارضہ لاحق ہوا ہے، اُن کا دوسرے لوگوں کے ہاں آنا جانا بہت کم ہے۔ اس وجہ سے اس وبا کا دائرہ محدود رہا ہے۔ گوروں کی ٹیم اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ یہ وبا مذکورہ نالے کی وجہ سے پھیلی ہے۔ مزید ہلاکتوں کے خوف کی وجہ سے مقامی لوگ اس نالے سے پانی لے جانا اور پھر اسے پینا ترک کردیتے ہیں۔ متبادل کے طور پر وہ ایک نزدیک قائم چشمے سے پانی لینا شروع کردیتے ہیں، اور اسی طرح مزید ہلاکتوں کا خدشہ عارضی طور پر ٹل جاتا ہے۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے گورے اپنی پوچھ گچھ کر کے آگے بڑھتے ہیں، اور نزدیکی مقامات کا بھی دورہ کرتے ہیں۔ اسی تناظر میں وہ مینگورہ سے ملحقہ گاؤں نویکلے بھی جاتے ہیں، وہاں پر جاکے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر ہیضے سے کوئی متاثر نہیں ہوا ہے۔
ایک مقامی تحصیل د ار گوروں کے سامنے اس وبا کے پھیلاؤ کی توضیح یہ پیش کرتے ہیں کہ ہر سال مئی کے مہینے میں ہندو سادھو سوات کی طرف آتے ہیں۔ پھر مینگورہ سے ہوتے ہوئے ایلم پہاڑی کی طرف جاتے ہیں، جو اُن کے لیے بہت مقدس جگہ تصور کی جاتی ہے۔ رواں سال بھی کچھ ہندو خاندان جون اور جولائی کے مہینوں میں مینگورہ میں مقیم رہے اور اپنے مذہبی عبادت خانے یعنی ”دھرم شالہ“ میں عبادت کی۔
انگریز کپتان تحصیل دار کے مؤقف کو آگے بڑھاتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ ہر سال ہندوستان کے شہر ایودھیا میں ہندورام چندر جی کا جنم دن مناتے ہیں اور رواں سال یہ تقریب 19 اپریل 1937ء کو منعقد ہوئی تھی۔ اس تقریب کے بعد مذکورہ ہندو عبادت گزار ملک کے طول و عرض میں پھیل گئے اور اُن جگہوں کی زیارت کی جہاں پر رام چندر جی نے اپنی جلا وطنی کے دن گزارے تھے۔ انہی عبادت گزاروں میں کچھ ہندو سادھو سوات سے ہوتے ہوئے ایلم کی پہاڑی پر گئے تھے۔
تحصیل دار کی ان اطلاعات کے بعد یہ ٹیم دھرم شالہ کی طرف جاتی ہے اور خدمت پر مامور اہلکاروں سے ضروری معلومات حاصل کرتی ہے۔ علاوہ ازیں ٹیم اُس مقام کا بھی دورہ کرتی ہے جہاں پر یہ ہندو سادھو نہانے کے لیے جایا کرتے تھے۔ اس رپورٹ میں یہ جگہ مینگورہ اور نویکلے کے درمیان بتائی گئی ہے اور یہاں پر چاول کے کھیتوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
اس تمام کارروائی اور پوچھ گچھ کے بعد گورے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ نالہ جو مینگورہ کے شمال میں بہتا ہے، پر دس دن کے لیے بند باندھ کر روکا جوئے۔ کیوں کہ یہی نالہ ہیضے کا مؤجب بنا ہے۔ انگریز اہلکار مطالبہ بادشاہ صاحب (میاں گل عبدالودود) کے سامنے رکھتے ہیں۔ بادشاہ صاحب کچھ وجوہات کی بنا پر یہ مطالبہ ماننے سے کتراتے ہیں۔ وہ گوروں کو مطلع کرتے ہیں کہ پانی کے اس نالے پر مقامی لوگوں کی فصلوں کا دار و مدار ہے۔ اس کے علاوہ اس پر پن چکیاں چلتی ہیں۔ یوں نالے کی بندش کی وجہ سے خوراک کی کمی لاحق ہوسکتی ہے۔ بالآخر بادشاہ صاحب اس بات پر راضی ہوجاتے ہیں کہ محض چوبیس گھنٹوں کے لیے پانی کو بند کے ذریعے روکا جائے۔ چناں چہ بند باندھ کر نالے کو صاف کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ صفائی اُس جگہ سے کرائی جاتی ہے، جہاں پر سادھو نہانے کے لیے جایا کرتے تھے۔ چوبیس گھنٹوں کے بعد نالے پر سے بند کو توڑا جاتا ہے اور پوری قوت کے ساتھ پانی کے بہاؤ کو یقینی بنایا جاتا ہے، تاکہ نالے کو صاف کیا جاسکے اور وبا کے جراثیم اس میں بہہ سکیں۔ اس اقدام کی وجہ سے بہت جلد بہتری کے آثار نمایاں ہوجاتے ہیں اور آئندہ کچھ دنوں تک مینگورہ میں ہیضے کا کوئی کیس سامنے نہیں آتا۔
اس کے بعد تمام کنوؤں کو ”پوٹاشیم پرمگنیٹ“ اور ”بلیچنگ پاؤڈر“ سے صاف کیا جاتا ہے۔ چوں کہ مقامی لوگ ابھی تک سہمے ہوئے ہوتے ہیں، تو اُن کو ایک مرکزی جگہ پر اکٹھا کیا جاتا ہے، تاکہ اُنہیں اس مہلک بیماری سے بچاؤ کے لیے حفاظتی تدابیر سمجھائے جاسکیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ لوگوں کو ایک مقام پر بلانے کے لیے ڈھول استعمال کیا جاتا ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ شریک ہوسکیں۔
بات یہاں پر نہیں رُکتی بلکہ متاثرہ افراد کے گھروں پر نشانات لگائے جاتے ہیں اور لوگوں کو تاکید کی جاتی ہے کہ جو لوگ اس وبا سے ہلاک ہوئے ہیں، اُن کے کپڑوں اور چارپائیوں کو نذرِ آتش کیا جائے۔ حفاظتی اقدام کے طور پر یہ تاکید بھی کی جاتی ہے کہ متاثرہ افراد کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے سے اجتناب کیا جائے۔
کیپٹن سی جے میسٹ مزید لکھتے ہیں کہ اسی اثنا میں ہمیں اطلاع ملتی ہے کہ ملاکنڈ ایجنسی کے قریب ایک گاؤں ابوہا تک یہ وبا پھیل گئی ہے اور وہاں پر ہمارے سامنے صرف دو کیسز سامنے آتے ہیں۔ یہ وبا بھی یقینا مینگورہ سے وہاں پہنچی تھی۔ ابوہا میں ایک خاتون اپنی بہن کے ہاں کچھ دن کے لیے ٹھہرتی ہے اور اسی طرح وہ نہ صرف خود جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے، بلکہ اُن کی بہن بھی وفات پاجاتی ہے۔
انگریز لکھاری کے مطابق ابوہا میں صرف یہی دو کیسز سامنے آتے ہیں۔ اس رپورٹ میں ایک گراف بھی دیا گیا ہے جس کی رو سے ہیضے سے کل اموات صرف 100 بتائی گئی ہیں۔
ابوہا کا ذکر رپورٹ میں دیکھ کر محترم فضل رازق شہابؔ صاحب سے رابطہ کیا، تاکہ اُن کی قیمتی آرا سے مستفید ہوسکیں۔ انہوں نے 1937ء کی اس وبا کے بارے میں بتایا کہ بزرگ فرمایا کرتے تھے کہ یہ ہلاکتیں ہزاروں کی تعداد میں تھیں۔
شہابؔ صاحب کے بقول ”بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے گاؤں ابوہا کے قبرستان میں کچھ لوگ مستقل طور پر کھڑے رہتے تھے اور قبریں کھودتے تھے، تاکہ مسلسل ہلاک ہونے والے افراد کی تدفین کو یقینی بنایا جاسکے۔“
فضل رازق شہاب صاحب اس سانحہ کے حوالے سے ایک ذاتی واقعہ بھی بیان کرتے ہیں جو کہ نہایت ہی دلخراش اور دل کو دکھا دینے والا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اُن کے والد ریاست سوات کے اہلکار تھے۔ وہ بھی اُس مہم کا حصہ تھے جو کہ بادشاہ صاحب نے پٹن کوہستان بھیجا تھا۔ دریں اثنا سوات میں ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی اور وہ پٹن کے دور افتادہ علاقے میں اس سے بے خبر تھے۔ جب وہ پٹن کی مہم جوئی سے واپس سوات (ابوہا) پہنچے، تو اپنے گھر کی طرف چل دیے۔ انہوں نے اپنے گھر کو مقفل پایا۔ جب انہوں نے اپنے والد (لال میاں) سے اپنے بال بچوں کی خیریت کے بارے میں دریافت کیا، تو انہیں یہ اندوہناک خبر دی گئی کہ اُن کی زوجہ اور ایک بیٹا اس وبا کا شکار ہوگئے ہیں اور اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔
فضل رازق شہابؔ صاحب کے مطابق اُن کے والد کا دل گاؤں سے بھر گیا۔ اسی لیے اُنہیں یہاں سے بادشاہ صاحب کے کہنے پر سیدوشریف کوچ کرنا پڑا۔ چند مہینوں بعد انہوں نے دوسری شادی کی اور اُن کے بطن سے فضل رازق شہابؔ صاحب نے جنم لیا۔
شہابؔ صاحب نے مزید بتایا کہ جب بھی میرے والد اس واقعے کا ذکر کرتے، تو مضبوط اعصاب کے مالک ہونے کے باوجود جذبات سے مغلوب ہوجاتے تھے، لیکن اسے اپنے رب کی مرضی سمجھ کر دل کو تسلی دیتے تھے۔
قارئین، اب آتے ہیں اُس رپورٹ کی طرف جس کا ذکر پہلے سے چلا آرہا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق مینگورہ کے مقام پر ایک کیمپ لگایا جاتا ہے جہاں پر لوگوں کو حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ کیمپ پر لوگوں کے بے انتہا رش کو دیکھتے ہوئے ریاست کی طرف سے سپاہی تعینات کیے جاتے ہیں، تاکہ نظم و ضبط کو بر قرار رکھا جاسکے۔ چوں کہ کیمپ میں خواتین کی آمد بھی ہوتی ہے، اسی لیے اُن کے لیے الگ جگہ مختص کی جاتی ہے۔ معائنے کے لیے آئے ہوئے لوگوں کو بلامعاوضہ ادویہ فراہم کی جاتی ہیں۔ اس کیمپ میں کل 29,590 افراد کو حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ کیپٹن ہیسٹ کی اس رپورٹ کے رو سے ریاستِ سوات کو 02 ستمبر 1937ء کو ہیضے سے محفوظ جگہ قرار دیا جاتا ہے۔
انگریز حکومت نے اپنے زیر انتظام علاقوں تک اس وبا کے ممکنہ پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لنڈاکے کے مقام پر لیوی اہلکاروں کو تعینات کیا۔ یہ لیوی اہلکاریہاں پر ریاست سے باہر جانے والے افراد سے ضروری پوچھ گچھ کرتے ہیں اور تسلی ہونے کے بعد اُنہیں جانے دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں تھانہ کے مقام پر ایک ڈسپنسری کھولی جاتی ہے، تاکہ ایمرجنسی کی صورت میں کام آسکے۔ اس حد تک احتیاط برتا جاتا ہے کہ ریاستِ سوات سے پھل اور سبزیاں برآمد ہونے پر پابندی عائد کردی جاتی ہے، تاکہ یہ وبا دیگر علاقوں تک نہ پھیل سکے۔
یہاں یہ لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ کالم حرفِ آخر نہیں ہے۔ اس وبا کے حوالے سے دیگر دوستوں کو اپنا حصہ ڈالنا چاہیے، تاکہ اس سانحے کے اثرات کو صحیح طور پر جانچا جاسکے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں