افتخار افتیکالم

عمیر، میں شرمندہ ہوں!

ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی۔ ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ موسم کافی سرد تھا۔ مَیں دل میں دعا کر رہا تھا کہ خدا کرے آج وہ مجھے نظر نہ آئے۔ اس بارش میں وہ گھر پر رہے، تو بہتر ہے۔ مَیں گھبراتے اور آگے بڑھتے ہوئے ٹھیک اُس مقام پر پہنچ گیا، جہاں وہ روزانہ بیٹھا کرتا تھا۔ یہ دیکھ کر مجھے انتہائی خوشی ہوئی کہ آج وہ اپنی مخصوص جگہ پر موجود نہیں تھا۔ مجھے اطمینان سا ہوا کہ چلو آج تو اُسے چھٹی مل گئی ہے۔ مَیں ہاتھ میں چھتری لیے بارش سے لطف اندوز ہوکر خراماں خراماں آگے بڑھ رہا تھا کہ اچانک میری سماعت سے وہی میٹھی اور جانی پہچانی آواز ٹکرائی: ”اے بھائی جانہ!“ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج مجھے اُس کی آواز بالکل اچھی نہ لگی۔ آواز سن کر مجھے ایسا لگا جیسے میرے نزدیک دھماکا سا ہوگیا ہو۔ مَیں نے گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ وہ سڑک کی دوسری طرف ایک چھوٹے سے چھپر کے نیچے بیٹھا تھا۔ میں فوراً اُس کے پاس چلا گیا اور پوچھا، ”عمیر! آج اس بارش میں ……؟ آج چھٹی کرلیتے نا، کیا آج آنا ضروری تھا……؟“ شائد وہ میرے اندر کے ”دُکھ“ سے بے نیاز تھا۔ اُس کے معصوم سے چہرے پر حسبِ معمول مسکراہٹ نظر آرہی تھی۔ سرد موسم، برستی بارش اور ظالم سماج سے بے خبر وہ اپنی ”دنیا“ میں مگن تھا۔ وہ سمٹ کر بیٹھا ہوا تھا۔ سردی کی شدت سے اُس کا جسم جیسے جم رہا تھا۔ ہونٹ نیلے ہو کر لرز رہے تھے۔ اُس کا ناتواں جسم اُس سرد موسم کا مقابلہ بھلا کیسے کرسکتا تھا؟ مَیں سمجھ نہیں پارہا تھا کہ کروں تو کیا کروں؟ اُس نے معصومیت سے کہا کہ ”آج کام نہیں ہوا۔کسی نے کچھ خریدا ہی نہیں۔“ باہر کی دنیا رنگین نظر آرہی تھی۔ ہر ایک اپنی دھن میں مست، چھوٹے عمیر کو کوئی نہیں دیکھ پا رہا تھا۔ سڑک پر چمکتی دمکتی کاروں کی ریل پیل تھی۔ ایسے میں پھر اُس کی آواز سنائی دی: ”بھائی جانہ! نن تہ سہ نا خلے سو؟“ (بھائی جان، آج آپ کچھ نہیں خریدیں گے؟) میں چونک پڑا۔ اُس کے سامنے پڑی ہوئی چھوٹی سی ٹوکری میں سے ایک اُبلا ہوا انڈا اُٹھایا اور اُسے پیسے دیے، اُس نے گن کر معصومیت سے کہا: ”ہلہ دا خو ڈیری دی“ (یہ تو زیادہ ہیں) مَیں نے کہا: ”خیر ہے رکھ لو!“ میں ایک ناکام جواری کی طرح سر جھکاکے آگے بڑھنے لگا۔ میری آنکھوں میں آنسو تھے، لیکن بارش کی بوندوں میں ان کی پہچان مشکل تھی۔ آج بارش ایک طرح سے میرا بھرم رکھ رہی تھی۔ میری ناکامی کو چھپارہی تھی۔
قارئین! عمیر سات یا آٹھ سال کا چھوٹا سا بچہ ہے۔ وہ زیادہ تر کچہری کے سامنے سڑک کے کنارے بیٹھا نظر آتا ہے۔ اُس کے سامنے ایک ٹوکری ہوتی ہے جس میں کھانے کی مختلف اشیا نظر آتی ہیں۔ گرمیوں میں وہ جوس کے ڈبے بیچتا ہے۔ وہ بہت ہی پیارا اور معصوم بچہ ہے۔ میٹھی میٹھی باتیں کرتا ہے۔ سرکاری اسکول میں پڑھتا ہے۔ اس کا والد بیمار ہے۔ کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں۔ اُس کی ماں لوگوں کے گھروں میں کام کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہے اور عمیر، اسکول کے بعد ”مزدوری“ کرتا ہے۔ شام کے وقت واک سے واپسی پر تقریباً روزانہ اُس سے میری ملاقات ہوجاتی ہے۔ کچھ وقت بیٹھ کر اُس سے باتیں کرلیتا ہوں۔ وہ بھی مجھ سے مل کر خوش ہوجاتا ہے۔ بچوں کی فطرت ہی یہی ہے کہ پیار کے دو میٹھے بول سے ان کا دل جیتا جاسکتا ہے۔ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس عمیر پھر بھی شہزادہ لگتا ہے۔ دیگر بچوں کی طرح اُس کے اندر بھی شوخی اور شرارت کوٹ کوٹ کر بھری ہوگی، مگر غربت نے وقت سے پہلے اسے سنجیدہ کر دیا۔
قارئین، یہ محض ایک عمیر کی کہانی نہیں۔ یہ ہمارے ملک کا شائد سب سے بہت بڑا المیہ ہے کہ وہ پھول جیسے بچے جن کی عمر پڑھنے اور کھیلنے کودنے کی ہوتی ہے، وہ غربت کے ہاتھوں سخت محنت مزدوری کرتے پائے جاتے ہیں۔ بقولِ شاعر:
میرے حصے میں کھلونے نہ کتابیں آئیں
خواہشِ رزق نے چھینا مرا بچپن مجھ سے
آپ کسی بھی ورکشاپ، چائے خانے اور بس اڈّا میں جائیں، چوراہوں میں نظر دوڑائیں، آپ کو قدم قدم پر ”عمیر“ ملیں گے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے بچوں کے لیے جامع منصوبہ بندی کرے، لیکن یہ کام پہلے ہوا ہے نہ آئندہ کوئی امکان ہے۔
آج میرا سوال ہے اُن لوگوں سے جن کو اللہ تعالیٰ نے بہت کچھ دیا ہے۔ کیا انہوں نے یہ کبھی سوچا ہے کہ یہ بچے بھی تو خدا کی مخلوق ہیں، ان کے بھی کچھ ارمان ہوں گے، ہم روز اپنے بچوں کی ہر خواہش پوری کرتے ہیں، وہ جو مانگتے ہیں، انہیں لاکر دیتے ہیں، ان بچوں کے دل میں بھی کچھ حسرتیں ہوں گی، کیا کسی کے پاس تھوڑا سا وقت ہے کہ ان بچوں کے سر پر دستِ شفقت رکھے، ان کے ساتھ چند گھڑیاں گزار کر ان کی حوصلہ افزائی کرے۔
عمیر جیسے بچے تو پھر بھی محنت مزدوری کرتے ہیں، بے شرمی کی انتہا تو یہ ہے کہ کتنے ہٹے کٹے نوجوان انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ بھیک مانگتے ہیں، معاشرہ ایسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے۔ عمیر جیسے بچے آپ کو ہر جگہ نظر آئیں گے، جن کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں مختلف چیزیں ہوتی ہیں۔ ایسے بچے حسرت بھری نگاہ سے ہمارے منتظر ہوتے ہیں، کیا ہم اُن کی مدد کرتے ہیں؟ کیا کوئی کچھ چیز ویسے ہی خرید کر اُن کو شاباش دیتے ہیں؟ کیا ہمارا رویہ اُن کے ساتھ مشفقانہ ہوتا ہے؟ میرا نہیں خیال کہ ایسا ہوتا ہے۔
میرا سوال اُن لوگوں سے بھی ہے جو ہر سال حج و عمرہ کے لیے پابندی سے جاتے ہیں۔ کیا آپ لوگوں نے کبھی یہ سوچا ہے کہ آپ کی معمولی سی مدد کی وجہ سے ان بچوں کا کتنا بھلا ہوسکتا ہے؟ حقوق اللہ کی خاطر تو آپ لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں، لیکن حقوق العباد کا ذکر کرتے اور ان لوگوں کی مدد کا موقع آتے وقت آپ کی ساری ایمان داری کہیں چلی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق کو تو معاف فر ماتا ہے، لیکن حقوق العباد میں کوئی نرمی اور رعایت نہیں برتتا۔ یہ سب جانتے ہوئے بھی ہم کیوں انجان بنے ہوئے ہیں؟
اے عمیر بیٹا! مجھے پتا ہے کہ آج میں پھر صحرا میں اذان دے رہا ہوں۔ میرے اور میری اس تحریر کی حیثیت ہی کیا ہے؟ سو میں بڑا مجبور و ناتواں انسان، آپ اس طرح شدید بارش میں محنت مزدوری کرتے رہیں۔ یہاں سارے گونگے بہرے رہ رہے ہیں۔ پیدل راہ گیر ہوں یا سڑک پر دوڑتی چمکتی دمکتی گاڑیوں میں بیٹھے لوگ، آپ کو دیکھ کر کچھ بھی محسوس نہیں کریں گے۔ کیوں کہ وہ بادشاہ لوگ ہیں۔
عمیر! میں شرمندہ ہوں۔ تمہیں دینے کے لیے میرے پاس سوائے آنسوؤں کے چند قطروں اور ڈھیر ساری دعاؤں کے اور کچھ نہیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں