جلال الدین یوسف زئیکالم

1954ء کو ریاستِ سوات میں ہونے والے انتخابات کی روداد

پاکستان کی آئینی تاریخ کبھی تابناک اور قابلِ فخر نہیں رہی ہے۔ سن 1956ء تک یہ ملک اپنے ایک آئین سے محروم رہا، اور 09 سال تک ملکِ خداداد انگریز حکومت کے بنائے ہوئے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت چلتا رہا۔ قائد اعظم کی رحلت کے بعد اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوئی، اور یہ باقی ماندہ لیڈر شپ قائد کی پیش گوئی کے عین مطابق ”کھوٹے سکے“ ثابت ہوئی۔
قائد کی زندگی ہی میں ریاستِ سوات کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا معاہدہ یعنی “Instrument of Accession” پر دستخط ہوئے اور اچھے خاصے اختیارات سے سوات کے حکمران دستبردار ہوگئے، لیکن بات یہاں پر نہیں رُکی۔ سن 1954ء میں ان ”کھوٹے سکوں“ کو سوات میں ”شخصی حکومت“ کی ایک بار پھر فکر لاحق ہوتی ہے۔ کالام کے پُرفضا مقام پر حکومت پاکستان اور والیِ سوات کے درمیان اعصاب شکن مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک اور عبوری معاہدہ ہوتا ہے، جسے “Supplementory Instrument of Accassion” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس عبوری معاہدے کے تحت ریاست سوات میں 25 افراد پر مشتمل ایک مشاورتی کونسل کی تجویز پر اتفاق رائے کیا جاتا ہے۔ نوابِ دیر کے عدم دلچسپی کے علاوہ دیگر ریاستوں میں اس مشاورتی کونسل کے لیے انتخابات کروائے جاتے ہیں۔ والی صاحب اس “Advisory Council” کی حلقہ بندیاں کرواتے ہیں اور ریاست کو پندرہ حلقوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ اس مشاورتی کونسل کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ یہ افراد حکمرانِ وقت کے ساتھ اہم فیصلوں میں شریک ہوں اور وہ ان کے مشوروں اور رائے کے مطابق فیصلے کریں۔ یہ یاد رہے کہ اس “Supplementory Instrument of Accession” میں صرف یہ شرط نہیں رکھی گئی تھی کہ محض یہ انتخابات کروائے جائیں گے، بلکہ ریاستی حکمرانوں کو اس بات کا پابند بنایا گیا تھا کہ وہ اپنی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کا بھی تعین کریں گے اور حکومتِ پاکستان کو یہ تفصیل فراہم کرائیں گے۔ اس کے علاوہ دیگر اُمور پر بھی سیر حاصل بحث کی گئی ہے، جس کی یہاں پر تفصیل بیان کرنے کا عمل طوالت اختیار کرسکتا ہے۔
اسی طرح والی صاحب کو یہ اختیار بھی دیا گیا تھا کہ وہ ان 25 افراد میں سے دس افراد خود بھی نامزد کرسکتے ہیں۔ چناں چہ الیکشن کے انعقاد کے لیے ایک الیکشن بورڈ ترتیب دیا جاتا ہے جو کہ عطاء اللہ خان، پُردل خان اور احسان الدین پر مشتمل ہوتا ہے۔ ریاست سوات میں یہ انتخابات 21,20 اور 22 دسمبر 1954ء کو منعقد ہوتے ہیں۔ فضل رازق شہابؔ صاحب کے مطابق ان انتخابات میں ووٹنگ کا سلسلہ بہت دلچسپ تھا۔ ووٹ کے خواہش مند افراد ایک کھلے میدان میں جمع ہوجاتے تھے، جہاں پر اُن کی گنتی ہوتی تھی۔ جس اُمیدوار کے ووٹرز گنتی میں زیادہ ہوتے تھے، وہ کامیاب قرار پاتا تھا۔ ریاستِ سوات کے ان انتخابات کے بعد نامی گرامی افراد اس مشاورتی کونسل کے ممبران بن جاتے ہیں۔
متذکرہ بالا کونسل کے اجلاس بعد میں باقاعدگی کے ساتھ ہوتے تھے، اور اہم فیصلوں کی توثیق اس کونسل سے کروائی جاتی تھی۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے مشاورتی کونسل کی مکمل کارروائی یہاں نقل کررہا ہوں، تاکہ اُن کو اس حوالے سے آگاہی حاصل ہوسکے۔ یہ ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ کونسل کی کارروائی اُردو زبان میں لکھی جاتی تھی اور حکومتِ پاکستان کے متعلقہ حکام کو ارسال کی جاتی تھی۔ جس مشاورتی کونسل کی کارروائی راقم یہاں پر نقل کر رہا ہے، وہ 26 اور 27 مارچ 1955ء کو منعقد ہوا۔ تفصیل کچھ یوں ہے:
26 مارچ کو ریاستِ سوات کے دارالخلافہ سیدوشریف میں بہ وقت 9 بجے اجلاس شروع ہوا۔ 9بجے سے قبل کونسل کے ممبران حاضر تھے۔ مشیرانِ کونسل میں سے ایک بہ وجہ علالت حاضر نہ ہوسکا۔ حضور والی صاحب کی تشریف آوری پر ہاؤس کے تمام اصحاب کھڑے ہوگئے۔ اس کے بعد اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی۔
1:۔ صاحب صدر حضور والی صاحب نے تمام حضرات کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ گذشتہ اجلاس میں آپ لوگوں پر واضح کیا گیا تھا کہ اجلاس کی تاریخ سے ایک ماہ قبل اپنی قراردادیں سیکرٹری کے پاس جمع کریں۔ اُن میں سے اکثر حضرات نے یہ کوتاہی کرلی ہے۔ مستقبل میں آپ کو اس معاملے میں محتاط رہنا چاہیے۔ اس کے بعد بجٹ کے لیے جناب والی صاحب کی تقریر سیکرٹری صاحب نے پڑھ کر سنائی۔ اس تقریر کو سامعین نے پورے غور و خوص سے سنا۔ دورانِ تقریر جناب والی صاحب صدر ایوان کی توجہ خاص خاص اُمور کی طرف منعطف کرتے رہے، اور خاص خاص نقطے جو قابلِ تشریح تھے، اُن کی ساتھ ساتھ وضاحت کرتے رہے۔
2:۔ تقریر کے بعد والی صاحب نے فرمایا کہ اس ایوان کے ممبرانِ کونسل میں سے جو اصحاب اپنی اپنی قراردادیں پیش کرنا چاہیں، وہ اُٹھ کر باری باری پڑھ کر سنائیں، تاکہ ان قراردادوں پر تفصیل سے بحث کی جاسکے۔
3:۔ سب سے پہلے میرا فور خان سکنہ کوٹکی غوربند نے ذیل تجاویز اپنی قرارداد میں پیش کیں۔
ا۔ کوٹکی کے سکول کو مڈل کا درجہ دیا جائے۔
ب۔ غور بند میں ایک ڈسپنسری کھولی جائے۔
مندرجہ بالا دو تجاویز کے بارے میں حضور والی صاحب نے فرمایا:
ا۔ چوں کہ کوٹکی میں فی الحال لوئر مڈل سکول موجود ہے اور طلبہ کی موجودہ تعداد کے لیے وہی سکول کافی ہے۔ البتہ بہ مقام الپورئی، مڈل سکول امسال اپریل میں جاری ہوگا۔ جہاں سے کوٹکی کے طلبہ آئندہ کے لیے فائدہئ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں اور تعلیم سے بہرہ مند ہوسکتے ہیں۔
ب۔ ڈسپنسری کے بارے میں صاحب حضور نے فرمایا کہ کوٹکی اور الپورئی کے درمیان کسی موزوں مقام پر ڈسپنسری کھول دی جائے گی۔ جہاں سے نہ صرف کوٹکی بلکہ الپورئی لیلونئی اور دیگر مقامات کے لوگ بھی فائدہ حاصل کرسکیں گے۔ یہ تجویز زیرِ عمل ہے۔
2۔ اس کے بعد عبدالقدوس خان عزی خیل نے اُٹھ کر کہا کہ نہر عزی خیل جو کہ شینڑ کے گاؤں سے شروع ہوتی ہے۔ اُن میں چند خامیاں قابلِ غورِ حکومت ہیں۔ جواب میں والی صاحب نے فرمایا کہ ان خامیوں کی نشان دہی کے لیے ایک ذمہ دار افسر جائیں گے۔ اُن کی رپورٹ دینے پر تمام خامیاں اِن شاء اللہ دور کی جائیں گی۔
3۔ علیم اللہ سکنہ دوبیر نے اُٹھ کر مندرجہ ذیل تجاویز پیش کیں۔
ا۔ کوہستان میں جنگلات میں کام کرنے کے لیے عملے کی تعیناتی کی جائے، تاکہ لوگوں کو روزگار مل جائیں۔
ب۔ آب پاشی کے لیے ان علاقوں میں چند سہولتیں بہم پہنچائی جائیں۔
جنگلات کے بارے میں صاحب حضور نے فرمایا کہ حکومت کے قیام سے قبل وہاں کے لوگوں نے جنگلات کو کافی حد تک نقصان پہنچایا ہے۔ پھر بھی محکمہئ جنگلات کے افسر کے معائنہ کے بعد اس پر غور کیا جائے گا۔
نہروں کے بارے میں صاحب حضور نے فرمایا کہ اگر چہ میں نے بہ ذاتِ خود کوہستان کا علاقہ تو نہیں دیکھا ہے، لیکن لوگوں کی معلومات کی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہاں نہروں کی کھدائی سے اتنا فائدہ نہیں ہوگا، جتنا کہ اس پر لاگت کا نقصان ہوگا۔ پھر بھی وہاں کے حالات کا جائزہ لیا جائے گا، اور جائزہ لینے کے بعد پھر کارروائی ہوگی۔
3۔ فیض محمد خان سکنہ پورن نے اُٹھ کر مندرجہ ذیل تجاویز پیش کیں:
ا۔ پورن کے مڈل سکول کو ہائی سکول کا درجہ دیا جائے۔
ب۔ مخوزائی کے پرائمری سکول کو مڈل کا درجہ دیا جائے۔
اس کے بارے میں صاحب حضور نے پھر مفصل فرمایا کہ حکومت کا ارادہ یہ ہے کہ کسی گاؤں میں بغیر تعلیم کے کوئی بچہ نہ رہ جائے اور حکومت مسلسل اس بارے میں کوشاں ہے، لیکن اساتذہ کی کمی کے باعث اکثر تجاویز ناقابلِ عمل ہیں۔ البتہ چکیسر میں ہائی سکول بنایا جائے گا، اور پورن کے طلبہ اس سے فائدہ اُٹھاسکیں گے۔ اسی طرح ہر حاکمی میں ایک سکول بنایا جائے گا، بہ شرط یہ کہ اساتذہ کی کمی نہ ہو۔
(جاری ہے)

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں