سمیا وہاب گیارھویں جماعت کی طالبہ ہیں۔ باصلاحیت اور خوددار ہیں۔ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی تعلیم ضروری سمجھتی ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ اپنے بڑے بھائی عباس وہاب کے ساتھ ”سکلز ڈویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ“ کے نام سے کمپیوٹر اکیڈمی چلاتی ہیں جس میں تقریباً 40 تک طلبہ و طالبات کو مختلف پروگرامز، ویڈیو آڈیو ایڈیٹنگ اور کمپوٹر سکلز کے ساتھ کمیونی کیشن سکلز، آرٹ، دستکاری اور انگلش لینگوج سکھاتی ہیں۔
سمیہ وہاب کا اس حوالہ سے کہنا ہے کہ ”مجھے بچپن ہی سے تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے میرے والدین سمیت میرے بھائی نے میرے ساتھ کافی محنت کی اور آج میں گیارھویں جماعت میں پڑھنے سمیت دوسرے طلبہ و طالبات کو بھی پڑھاتی ہوں، جو میں اپنے اور اپنے خاندان کے لیے ایک اعزاز سمجھتی ہوں۔ میری خواہش ہے کہ ہر کوئی تعلیم عام کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ کیوں کہ تعلیم ہی سے ترقی ممکن ہے۔“
سمیا وہاب مانتی ہیں کہ تعلیم یافتہ اقوام ہی دنیا پر حکمرانی کرتی ہیں۔ ان کے بقول ”میرا بھائی، مجھے سپورٹ کرتا ہے۔اس لیے مَیں آگے جانے کی بھرپور کوشش کرتی ہوں۔ تقریباً دو سال قبل میرے بھائی نے سکلز ڈویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ کے نام سے کمپیوٹر اکیڈمی کی بنیاد رکھی، تو اس وقت مَیں نویں جماعت میں تھی۔ پڑھنے کے ساتھ ساتھ مَیں نے اپنے ادارے میں دلچسپی لی اور آج وہ ایک کامیاب ادارہ ہے، جہاں سے ڈھیر سارے سٹوڈنٹس سیکھنے کے بعد فارغ ہوچکے ہیں۔ بہت سے سیکھ رہے ہیں۔ ہمارا مقصد طالب علم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے۔“
ان کا مزید کہنا تھا کہ شروع میں یہ مشکل درپیش تھی کہ کس طرح طلبہ کو پڑھائیں گے لیکن آہستہ آہستہ چیزیں آسان ہوگئیں۔ ”اب مَیں انسٹیٹیوٹ نہ جاؤں، تو ایسے لگتا ہے کہ کوئی چیز کہیں رکھ کر بھول گئی ہوں۔“
سمیا وہاب کے بڑے بھائی عباس وہاب جو ایم فل کے طالب علم ہیں، کا کہنا ہے کہ ”ہمارے نوجوان اکثر یہ گلہ کرتے ہیں کہ جاب نہیں ملتی۔ جاب ملنا بھی ٹھیک ہے لیکن وہ کچھ ایسا کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے کہ دوسروں کے لیے جاب دینے کے قابل ہوجائیں۔“
قارئین، مَیں نے بیٹھے بیٹھے سمیا وہاب سے ”ایڈیٹنگ“ بارے سوال کیا، تو ان کا کہنا تھا کہ ایڈیٹنگ سکھانے کا مقصد سوشل میڈیا پر کام کرنے والوں کو ایک پلیٹ فارم دینا ہے، تاکہ وہ لوگ بہتر ویڈیوز بناکر پیش کریں۔ کیوں کہ سوشل میڈیا کی فعالیت سے انکار ممکن نہیں۔ ضروری ہے کہ لوگوں کو معیاری ویڈیوز بناکر پیش کی جائیں۔ ”ہم آڈیو ایڈیٹنگ، آرٹ، کمیونی کیشن سکلز، کمپیوٹر سکلز اور دستکاری سکھاتے ہیں، اس لیے کہ طلبہ و طالبات اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں۔ میری والدہ پڑھی لکھی نہیں، لیکن ہماری پڑھائی پر انتہائی توجہ دیتی ہیں۔ ہر وقت ”ہوم ورک“ کا پوچھتی رہتی ہیں۔ ہمارے والد صاحب بھی دن رات محنت کرکے ہماری بہتر پڑھائی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اس طرح اگر تمام والدین اپنے بچوں کی پڑھائی پر توجہ دیں، تو تعلیم یافتہ معاشرے اور ترقی یافتہ ملک کا خواب پورا ہوجائے گا۔
متعلقہ خبریں
- کمنٹس
- فیس بک کمنٹس