عصمت علی خانکالم

کیا سرکاری ملازم نجی تعلیمی ادارہ چلا سکتا ہے؟

قارئین کرام! مجھے کافی عرصہ سے ایک فکر کھائی جا رہی ہے کہ ایک سرکاری ملازم سیاست میں حصہ نہیں لے سکتا، تو وہ اپنی نوکری کے ساتھ کوئی اور کام کیوں کرسکتا ہے؟ کافی عرصہ سے میں ایسے لوگوں کو دیکھ رہا ہوں جو سرکاری نوکری کے ساتھ یا تو این جی اُوز چلا رہے ہیں یا نجی سکولز چلاتے ہیں،یا پھر کسی اور کام سے منسلک ہوتے ہیں، اور دونوں کام اچھے طریقے سے کرتے ہیں۔ اپنا سرکاری کام بھی وقت پر کرتے ہیں اور ہرکام میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ اپنا این جی اُو اور نجی سکول بھی ایسے چلاتے ہیں کہ باقی لوگ ان سے مشورے لیتے ہیں۔ مجھے یہ فکر بھی کھائی جا رہی ہے کہ کچھ لوگوں پر اپنا ایک کام اتنا زیادہ ہوتا ہے، اس کا اتنا بوجھ ہوتا ہے، وہ اتنا تھک جاتے ہیں کہ سر پکڑ کر اللہ کو یاد کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ کب مجھے تھوڑا سا آرام اور سکون کا موقعہ ملتا ہے اور سکون کا سانس لے سکوں۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ ایک ہی وقت میں دو دو کام نمٹاتے ہیں۔
ایسے میں سرکاری سکول کے استاد کو دیکھیں، تو آپ کو اپنے علاقوں میں ایسے اساتذہ ملیں گے جو سرکاری سکول میں بھی پڑھائیں گے اور اس کے ساتھ نجی سکول قائم کرکے پڑھنے پڑھانے کے ساتھ کمائی کا ذریعہ بھی بنائے رکھیں گے۔ اب یہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک کلاس جس میں 30 تا 40 طلبہ کو ایک استاد پڑھاتاہو، اور یہ سلسلہ دوپہر تک چلتا ہو، اس کے ساتھ یہی استاد دوپہر تک جو اپنے شخصی سکول کا ڈائریکٹر ہوتا ہے، اپنے ادارے میں 600 سے 700 تک کے طلبہ کی بہتری کے لیے کس طرح کوشش کرسکتا ہے؟ اور اس کی کوشش اور پڑھائی کے لیے تگ ودو کی وجہ سے طلبہ کے پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ یہاں اور وہاں چلتا بھی رہتا ہے، لیکن فرق آپ پر تب واضح ہوگا، جب سرکاری اور نجی سکول کے نتائج کا وقت ہو۔ واضح فرق پھر یہ ہوتا ہے کہ نجی سکول کا رزلٹ سرکاری سے بہتر ہوتا ہے۔ اسی نکتہ پر مجھے تشویش ہے۔ کیوں کہ موصوف تو سرکاری سکول کا استاد ہوتاہے، اور اسی سرکاری سکول کے وجہ سے حکومت اس کو لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ تک تنخواہ دیتی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ سرکاری سکول کا رزلٹ بہتر ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ اس بات نے مجھے تشویش میں مبتلا کرکے رکھ دیا ہے۔
قارئین، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ میرے ذہن میں اس حوالہ سے کئی سوالات آتے ہیں، لیکن اس سے پہلے اپنا ایک واقعہ آپ سے شریک کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ سال قبل جب سوات میں ریلیف کے نام پر ”نا ن گورنمنٹ آرگنائزیشنز“ (این جی اُوز) کام کرہے تھے، یہاں ایک لوکل این جی او جو سوات کا ایک ایسا شخص چلا رہاتھا جو سرکاری نوکر بھی تھا۔ روٹین صبح نو بجے سے شام چار بجے تک اپنی ڈیوٹی کے ساتھ وہ غیر سرکاری تنظیم بھی چلاتا تھا۔اُسی تنظیم کا ایک ملازم فریاد لے کر میرے پاس آیا اور کہا کہ میرا نام ظاہر نہ کیا جائے اور اس کے خلاف کارروائی کے لیے صحافتی خدمات دی جائیں۔ مَیں نے اس حوالہ سے اپنی تحقیق شروع کردی کہ آیا اس کے ساتھ حقیقت میں زیادتی ہوئی ہے، یا وہ الزام تراشی کر رہاہے؟ مَیں تحقیق کرکے اس نتیجہ پر پہنچا، کہ مذکورہ شخص کے ساتھ حقیقت میں زیادتی ہورہی ہے، اور اس کی جو تنخواہ مقرر ہے، اس میں این جی او کا سربراہ کٹوتی کر رہاہے۔ اس کے ساتھ دیگر ملازمین کے ساتھ بھی یہی سلسلہ جاری تھا۔ اس موقعہ پر میرے ذہن میں یہ سوال اٹھا کہ کیا ایک سرکاری ملازم این جی او بھی چلا سکتا ہے؟ تو میرے معلوم کرنے پر پتا چلا کہ سرکاری نوکر اپنی نوکری کے ساتھ اور کوئی کام نہیں کرسکتا۔ لہٰذا کسی بھی سرکاری نوکر کو پرائیویٹ کام کرنے کی اجازت نہیں۔اُس وقت میں بوجوہ اُس ”سربراہ“ کا چہرہ بے نقاب نہ کرسکا۔ اگرچہ میرے ساتھ وہ دستاویزات اب بھی بطور ثبوت موجود ہیں، جو تما م کے تمام اس کے نام پر ہیں۔ اب بھی وہ این جی او فعال ہے، اور عوامی ”فلاح و بہبود“ کے نام پرکام جاری ہے۔
اسی طرح ایک اور استاد کو بھی دیکھا، جو ہے تو سرکاری نوکر، لیکن اپنا ایک نجی سکول بھی ساتھ ساتھ چلاتاہے اور باقاعدہ اس کو وقت بھی دیتا ہے۔ وقت دینے کی وجہ سے وہ سکول رزلٹ بھی بہتر دیتا ہے۔
قارئین، اکثر اساتذہ میں نے ایسے بھی دیکھے ہیں جو سروس کے دوران میں چھٹی لے کر باہر ممالک میں سالوں محنت مزدوری کرکے اپنا مستقبل سنوارتے ہیں۔ ایسی ڈھیر ساری مثالیں ہیں جنہیں ظاہر نہ کرنے پر معذرت خواہ ہوں، لیکن سوال تو بنتا ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہے؟ مَیں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں، جنہوں نے بمشکل اپنے فرائض کو وقت دے کر احسن طریقے سے انہیں نبھانے کی کوشش کی ہے، لیکن وہ ناکام رہے۔
قارئین، تعلیم کی اہمیت سے ہم سب واقف ہیں۔ دورِ جدید کا تقاضا ہے کہ ہمیں اپنی نئی نسل کو بہر صورت تعلیم یافتہ بنانا ہے۔ یہ نہیں کہ وہ ڈگری لیں، اور ان کو پتا نہ ہو، کہ یہ ڈگری کس شعبہ کی ہے؟ بلکہ تعلیم یافتہ وہ ہے کہ اس کو رہن سہن، رسم و رواج، اٹھنے بیٹھنے سمیت سب سے بڑھ کر موجودہ چیلنجوں کا ہنر سکھایا جائے، کہ موجودہ چیلنجز سے کس طرح نکلا جائے، اور کس طرح بحیثیتِ قوم چیلنجز کے لیے اس کو تیار کیا جائے؟ سادہ الفاظ میں ”تعلیم وہ ہے جو آپ کے رویے میں تبدیلی لائے۔ “Education means change in Behaviour.”

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں