عام طور پر وکالت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ”وکالت جھوٹ کا پیشہ ہے!“ یعنی جو شخص وکیل ہوگا، تو سمجھو کہ وہ جھوٹا بھی ہوگا۔
مَیں اپنے دوستوں کو اکثر کہتا ہوں کہ میں حق و سچ کی وکالت کروں گا، اور مذکورہ قول کو غلط ثابت کروں گا، تو جواب ملتا ہے: ”شاید آپ وکیل نہیں بننا چاہتے۔ اگر آپ کا ضمیر زندہ ہے، تو آپ یہاں ناکام ہیں۔“
قارئین، یہ مسئلہ صرف وکالت کے ساتھ نہیں، اگر آپ غریب ہیں، تو آپ کے منھ سے نکلا سچ زہر ہے۔ اگر آپ مجبور ہیں، تو آپ کے سچے الفاظ بھی جھوٹے ہیں۔ اگر آپ ماتحت ہیں، تو آپ کو سچ بولنے کا اختیار ہی نہیں۔ اگر آپ مجلس میں چھوٹے ہیں، تو آپ کی سچائی بد تمیزی ہے۔ اگر آپ بلاوجہ سچ بولنے کے عادی ہیں، تو سمجھیں کہ آپ اس زمانے کے سب سے بڑے فسادی ہیں۔ اگر آپ جھوٹ بولنے والے سیاست دان ہیں، تو آپ مہان ہیں۔ اگر آپ جھوٹ نہیں بول سکتے، تو آپ اناڑی ہیں۔ اگر آپ کمزور اور لاچار ہیں، تو بلا وجہ سچ بول کر خود کو برباد نہ کریں۔ اگر سچ بول کر پھر بھی آپ کم ظرفوں کے وار سے محفوظ ہیں، تو سمجھیں کہ آپ کے سچ پر جھوٹ کا سایہ ہے۔ اگر آپ زور آور ہیں اور زمانے کی آنکھ میں آنکھ ڈالنے کی ہمت رکھتے ہیں، تو پھر آپ جھوٹے نہیں ہیں۔ پھر آپ کی یہ خصلت آپ کی قابلیت ہے۔
قارئین، ایک دفعہ میری اپنے ایک دوست کے ساتھ بیٹھک ہوئی۔ مَیں نے نواز شریف کی تعریف کی، تو عباس نے کہا کہ ہاں یہ تو ہے۔ نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کیے، موٹر وے بنایا۔دورانِ گفتگو قریش صاحب جو کہ پی پی پی کے جیالہ ہیں، نمودار ہوئے۔ انہوں نے زرداری کی تعریف کی، تو دوست فرمانے لگا کہ زرداری تو ڈان ہے۔ دیکھنا، اگلا صدر زرداری اور وزیراعظم بلاول ہوگا۔ بھٹو کے کارنامے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ بینظیر بھٹو بے مثال شخصیت تھیں۔ یہ ملک پیپلزپارٹی ہی چلا سکتی ہے، بس!
دو دن بعد ہماری مجلس میں اے این پی والے آ بیٹھے، تو وہی دوست فرمانے لگا کہ اے این پی تو پختونوں کی اصل پارٹی ہے۔ اے این پی کی مخالفت گویا پختون قوم کی مخالفت ہے۔ اچانک دوست کی نظر نسیم صاحب پر پڑی جو فضل الرحمان صاحب سے عقیدت رکھتے ہیں،ان کا دل رکھنے کے لیے کہنے لگا کہ مولانا فضل الرحمان صاحب کو اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ مقام دیا ہے۔ کوئی بھی پارٹی مولانا صاحب کے بغیر ملک چلانے کی ہمت نہیں کرسکتی۔
اس سے پہلے جب ہم چائے کے ہوٹل میں بیٹھے تھے، تو دوست کے الفاظ کچھ یوں تھے کہ جنرل مشرف واحد شخص ہے جو امریکہ کو آنکھ دکھا سکتا ہے۔ وہ کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہے۔ کیوں کہ وہاں ہوٹل میں مشرف کی تصویر منھ میں سگار لیے لگی تھی۔ اگلے دن میں اور ذکر شدہ دوست، مشتاق کی گاڑی میں یونیورسٹی سے واپس آ رہے تھے۔ مشتاق صاحب کا تعلق تحریکِ انصاف سے تھا، تو میرا وہ دوست کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوکر بولا کہ عمران خان قوم کا ہیرو ہے، قائد اعظم کا دوسرا روپ ہے، اس ملک کی شان ہے۔
قارئین، چوں کہ وہ میرا اچھا دوست تھا، اس لیے مَیں نے اس سے پوچھا کہ آپ اتنا جھوٹ کیوں بولنے لگے ہیں؟ تو اس نے کمال کا فقرہ کہا کہ سیاست دانوں کیے لیے ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے جھگڑنے سے ہزار ہا بہتر ہے کہ جھوٹ بول کر لڑائی کو مات دے دی جائے۔ ہر شخص کے سامنے اس کی پارٹی کی تعریف کریں، تاکہ سیاسی انتہا پسندی سے بچا جاسکے۔ ویسے بھی یہ ملک باتوں سے نہیں بننے والا۔ دوغلا پن اختیار کروگے، تو ہی بچو گے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس سماج میں دوغلے پن کو دانائی کہتے ہیں۔
برسبیل تذکرہ، سعادت حسن منٹو کہتے ہیں کہ ادیب کا کام صرف اس قدر ہے کہ وہ سماج کی برائیوں کو سامنے لائے۔ ان برائیوں کی اصلاح کرنا ادیبوں کا نہیں مصلحین کا کام ہے۔ مَیں اس معاشرے کی چولی کیا اتاروں گا، جو ہے ہی ننگی اور میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کروں گا، کیوں کہ یہ میرا نہیں درزیوں کاکام ہے۔
قارئین، باقی فیصلہ آپ خود کیجیے!
متعلقہ خبریں
- کمنٹس
- فیس بک کمنٹس