سعید الررحمانکالم

شائستہ خان، پیکرِ عزم و ہمت

ایک عور ت ماں، بیوی، بہن اور بیٹی ہر روپ اور ہر رشتے میں عزت، وقار اور وفاداری کا پیکر ہے۔ آزادی اور ترقی کے باوجود عورت پر تشدد ابھی تک ختم نہ ہوسکا۔ جسمانی تشدد کے علاوہ خواتین کو جارحانہ برتاؤکا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، جو انہیں نفسیاتی طور پر بھی تباہ کر دیتا ہے۔ اس ترقیاتی دور میں بھی عورت کو کافی مشکلات کا سامنا ہے، مگر بدقسمتی یہ ہے کے کچھ ثقافتی پابندیوں اور نام نہاد غیرت کی وجہ سے بعض اوقات ایسے سیکڑوں واقعات کو چھپایا جاتا ہے، جو دیکھ کر انسان کے ہوش اُڑ جاتے ہیں۔
قارئین کرام، ان متاثرہ خواتین میں ایک کا تعلق سوات سے ہے، جوہمت کا پیکر اور حوصلے کی چٹان ہیں۔ شائستہ خان کا تعلق ضلع سوات سے ہے، مگر ان کی پیدائش بیرون ملک میں ہوئی ہے۔ان کا ہنستا بستا گھر تھا۔ زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔وہ گھر کی لاڈلی تھیں۔ اس لیے اس نے گھر میں کبھی کچن کا دروازہ نہیں دیکھا تھا۔ جب اس نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا، تو ان دنوں وہ بیرونِ ملک سے چند دن کے لیے پاکستان آئیں، تو ان کے پڑوسیوں نے ان کا رشتہ مانگا۔ یوں دوستی، رشتہ داری میں بدل گئی۔ شائستہ کی اس وقت عمر پڑھائی کی تھی، مگر ان کے والدین نے دو ہزار گیارہ میں ان کی شادی بیس سال کی عمر میں ہی کرادی۔ ان کی زندگی میں خوشیوں کی بہار تھی مگر نہ جانے کس کی نظر لگ گئی۔ وہ خوب کماتی تھی اور شوہر ہاتھ آنے والی رقم کو اللے تللوں میں اڑایا کرتا تھا۔ وہ بیرونِ ملک اسکول میں نہ صرف ٹیچر تھیں بلکہ ایک موٹی ویشنل سپیکر بھی تھیں۔ اس لیے وہ لاکھوں میں کماتی تھیں۔ کچھ عرصہ بعد جب خاتون نے شوہر سے کام کرنے کو کہا، اور اس نے اپنے پیسے فضول کے عیاشیوں میں خرچ کرنے سے منع کیا، تو ان کے خاوند نے ان پر تشدد شروع کیا۔ جب تشدد روز کا معمول بن گیا، تو مجبوراً اس نے سات سال بعد اپنے خاوند سے عدالت میں خلع لے لیا، اور اپنی زندگی کا ایک نیا سفر شروع کیا۔
شائستہ کہتی ہیں کہ میرے شوہرنے اور بھی بہت ظلم ڈھائے ہیں۔ مجھے بہت تکلیف دی ہے، جس کے ثبوت اب بھی میرے ساتھ ہیں، مگر میں اس مقدس رشتے کی خاطر ایسا کچھ نہیں کہنا چاہتی جس سے میاں بیوی کے رشتے پر سے اعتماد اٹھ جائے۔ تشدد کے علاوہ بھی اس کی حرکتیں بیان کرنے کے قابل نہیں۔ کیوں کہ وہ تشدد کے ساتھ میری عزت اور وقار کے ساتھ بھی کھیلنا چاہتا تھا، جس پر مَیں نے ان سے خلع لینے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
قارئین، جب شائستہ نے خلع لے لیا، تو پھر معاشرے میں لوگ بھی نامناسب رویے سے ان کے ساتھ پیش آنے لگے۔ جب وہ اپنے کام کے لیے جاتیں، تو لوگ طر ح طرح کی باتیں سنایا کرتے۔جب گاڑی چلاتیں، تو بھی مردوں کے اس معاشرے سے برداشت نہیں ہوتا تھا، لیکن پھر بھی اس نے لوگوں کی باتوں کی پروا کیے بغیر اپنے خاندان کے لیے لڑنے لگیں۔
شائستہ کے بقول ”خلع کے بعد زندگی اجیرن ہوگئی۔ طرح طرح کی باتوں سمیت دھمکیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ اب بھی جاری ہے، مگر بدنامی اور مشکلات کے باوجود نہیں ڈری۔ کیوں کہ خدا نے جو زندگی دی ہے، اس پر میرا حق ہے۔مَیں اسے اپنے مطابق جیوں گی۔“
شائستہ کے والدین وفات پاچکے ہیں۔ اس کا ایک بھائی سپیشل ہے۔ گھرمیں مرد نہیں، تو کیا کرتی بے چاری۔ عزت سے نوکری کرنا کون سا گناہ ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں عورت سے یہ حق بھی چھینا جاتا ہے۔شائستہ کے بقول، جب گھر سے نکلتی ہوں، توغیرت کے دعوے دار مردوں کی گندی نظریں چبھتی ہیں، لیکن کیا کروں اگر میری طرح بہت سی مجبور لڑکیاں گھر میں بیٹھ جائیں، تو کیا یہ غیرت مند مرد ایک وقت کی روٹی کسی کو کھلاسکتے ہیں؟
عائشہ کے بقول، ”اب بیمار رہتی ہوں، سانس اور دل کی بیمارہوں۔نفسیاتی مسائل نے زندگی مشکل کر دی ہے۔ شوہر کی طرف سے اب بھی دھمکیاں ملتی ہیں۔ میری جان کو شدید خطرہ لاحق ہے، لیکن پھر بھی ثابت قدمی سے لڑ رہی ہوں۔ زندگی میں خوشیوں کی بہار پھر سے لوٹ آئی ہے۔ کیوں کہ زندگی کا اصل مقصد انسانیت کی خدمت کرنا ہے، جس سے مجھے سکون ملتا ہے۔ اب زندگی کا ایک مقصد ہے، اور وہ ہے خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنا۔ اب تک سیکڑوں خواتین کو ان کے حقوق دلا چکی ہوں، جس میں مجھے خوشی ملتی ہے۔ اسلام شادی کے معاملے میں مرضی، پسند، محبت اور مفاہمت کوآخری حدتک اہمیت دیتا ہے
شائستہ کے مطابق قرآن مجید میں عورتوں کو مردوں کی کھیتی کہا گیا ہے۔ بہت سے لوگ اس پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں، مگر اس کی حقیقت پر غور نہیں کرتے۔ وہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ اسلام عورت کو صرف بچہ پیدا کرنے کی مشین سمجھتا ہے، جب کہ عورت کو مرد کی کھیتی کہنے کی حقیقت یہ ہے کہ کسان کو کھیتی سے والہانہ عشق ہو تا ہے۔ وہ اس کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کو ہر آفت سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر وقت اس کا دل کھیتی اور اس سے متعلق کا روبار میں پڑا رہتا ہے، نیزوہ صرف اپنی ہی کھیتی کو دیکھ کر خوش ہو تا ہے۔ دوسرے کی کھیتی سے اسے کوئی واسطہ اور مطلب نہیں ہوتا، مگرہمارے معاشرے میں گنگا الٹی ہی بہتی ہے۔“
شائستہ کا خیال ہے کہ جس طرح ستون کو دیکھ کر کسی عمارت کی مضبوطی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، اسی طرح معاشرہ میں عورت کی حیثیت کو دیکھ کر قوم کی عظمت اور سربلندی کا اندازہ باآسانی کیا جا سکتا ہے۔ معاشرہ کا یہ ستون اگر مضبوط ہے، تو اس پر قوم کے امن وعافیت کی چھت ڈالی جاسکتی ہے، مگر بد قسمتی یہ ہے کہ معاشرے میں عورت کو وہ مقام نہیں دیا جاتا، جو اس کا بنیادی حق ہے۔ مردوں کے اس معاشرے میں شائستہ خود کو کسی کم نہیں سمجھتی۔ کیوں کہ ان کا ماننا ہے کہ ہرمرد اور عورت میں صلاحیتیں موجود ہیں۔ مَیں گھر کے تمام کام خود کرتی ہوں۔ہمارے گھر میں مرد نہیں، تو مرد کے کام بھی مَیں ہی کرتی ہوں، جیسے گاڑی چلانا، بازار سے گھر کی ضروری اشیا خرید کر لانا، وغیرہ۔
عائشہ کے بقول، ”پہلے پہل جب گھر سے نکلتی تھی، تو لوگ عجیب نظروں سے دیکھتے تھے۔ مگر اب آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہوگیا ہے۔ اب محلے میں سب کو پتا ہے۔ ہمارے ساتھ ہمدردی سے پیش آتے ہیں، اور اگر کوئی مشکل آ پڑے، تو ہماری مدد بھی کرتے ہیں۔ مَیں نے اپنے والدین سے سیکھا ہے کہ کسی کا برا مت چاہیں، اور اسی پہ میں عمل در آمد کرتی ہوں۔ اب زندگی کا ایک مقصد ہے کہ خواتین کے حقوق کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاؤں اور ان کے حقوق کے لیے کام کرنے سے دل کو سکون ملتا ہے۔“
قارئین، اس باہمت خاتون کی تعلیم کم عمری کی شادی کے باعث ادھوری رہ چکی تھی، لیکن اب اس نے اپنا تعلیمی سفر دوبارہ شروع کردیا ہے۔ اب جماعتِ دہم میں اس نے کافی اچھے نمبر حاصل کیے ہیں۔چوں کہ انہوں نے زندگی کے زیادہ دن پاکستان سے باہر گزارے ہیں۔ اس لیے ان کی ایپروچ اعلی تعلیم یافتہ لوگوں سے بھی بڑھ کر ہے۔انگریزی ایسی روانی سے بولتی ہے کہ خود انگریزی بولنے والے اَش اَش کر اٹھیں۔
قارئین، یہ پیکرِ عزم و ہمت اب اپنی کہانی کو کتابی شکل دے رہی ہیں، تا کہ دیگر خواتین اس کے نقشِ قدم پر چلیں۔ کتاب بہت جلد آپ لوگوں کے ہاتھ میں ہوگی۔ہمیں بجا طور پر ایسی خواتین پر ناز کرنا چاہیے!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں