زبیر توروالیکالم

خبردار، سوچنا جرم ہے!

دنیا کی نظروں میں اُس احتجاج کی اہمیت اور ساکھ زیادہ ہوتی ہے اور اُسے زیادہ سنجیدہ بھی لیا جاتا ہے جسے کسی بھی ملک کے عوام از خود کریں اور جس میں حکومتوں کا کردار سامنے نہ ہو۔ کشمیر کے مسئلے پر اگر پاکستانی عوام اپوزیشن سمیت از خود احتجاج کرتے، تو دنیا اس کو زیادہ سنجیدہ لیتی۔ حکومتوں کا کام سفارتی و عسکری سطح پر کسی ایسے مسئلے سے نمٹنا ہوتا ہے، باقی احتجاج اور مظاہرے لوگ خود کرتے ہیں۔ حکومت جب خود کسی مسئلے پر لوگوں کو احتجاج کرنے پر اُکسانے کی کوشش کرے، تو اُس سے لوگوں میں تقسیم پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ اُس احتجاج کی ساکھ بھی متاثر ہوجاتی ہے۔ 30 اگست کو حکومت نے آدھا گھنٹا کشمیر کے لیے کھڑا ہونے کی کال دی، اور کئی شہروں میں زبردستی احتجاج بھی کرایا۔ اسلام آباد کے تمام روڈز پر سگنلز کو بند کیا گیا، تاکہ گاڑیوں کی آمد و رفت بند ہو اور احتجاج کامیاب ہو۔ یہ ایسے ہی ہوا جب کئی پارٹیاں اقتدار میں آکر جلسے کرتی ہیں، تو سرکاری ملازمین کو ان جلسوں میں شریک ہونا پڑتا ہے، تاکہ جلسے میں لوگوں کی تعداد زیادہ ہو۔
حکومت احتجاج کی کال دینے کی بجائے بین الاقوامی سطح پر پُرزور سفارت کاری کرے اور اس کے لیے آرمی چیف کو اپنے ساتھ رکھے کہ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں فیصلے کون کرتا ہے۔ باقی لوگوں کو میڈیا جذبہ دلائے اور وہ خود نکل کر بلا کسی پارٹی تفریق کے احتجاج کریں، مگر…… کیا کرے حکومت……! یہ بہ وقتِ حکومت، اپوزیشن اور عوام کا کردار نبھاتی ہے، بلکہ حکومت کم اور اپوزیشن زیادہ لگتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت اور اس کے پیچھے لوگ پاکستان میں فکر، سوچ، آزادی، عدلیہ، میڈیا، عوام سب کو قابو کرنا چاہتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف اور اس کے آقا ہی رہیں۔ ہر ذہن ان کی طرح سوچے، ہر ہاتھ ان کی طرح ہلے اور ہر لب وہی بولے جو یہ بولتے ہیں، یا سننا چاہتے ہیں۔
مگر کہیں نہ کہیں سے تو مزاحمت ہوتی ہے ضرور، اور نہ سیاسی پارٹیوں کو ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔ ضیا نے کوشش کی، مشرف نے کوشش کی ان پارٹیوں کو ختم کرنے کی، لیکن ضیا اور مشرف خود اندھیروں میں کھوگئے جب کہ یہ پارٹیاں مزید زندہ ہوگئیں۔ اپنے مخالفین کو ختم کرنے کی کوشش انفرادی سطح پر کامیاب ہوتی ہے اور نہ اجتماعی سطح پر، اور ایسی کوئی کوشش خودکشی کے مترادف ہوتی ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں