کالممحمد وہاب سواتی

الفاظ کا جادو

ہمارے ایک استاد ہیں۔ ان کی عادت ہے کہ وہ ہر طالب علم کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ غبی سے غبی طالب علم کی پیٹھ تھپکاتے ہیں اور اس کی رہنمائی کرتے ہوئے اسے جینے کی آس دلاتے ہیں۔ ایسے طلبہ میں معمولی سی خوبی دیکھ کر کہتے تھے کہ ”دَ نر زویہ“ یعنی ’‘’آفرین!“
ان کے یہ الفاظ کسی بھی طالب علم کے لیے کسی ماہر طبیب کی دوا کی طرح کام کرجاتے تھے۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ کند ذہن طالب علم میں خود اعتمادی کا مادہ پیدا ہوجاتا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ نمایاں کارکردگی دکھانے لگ جاتا۔
قارئین کرام! زندگی میں ایسے موڑ آتے ہیں کہ انسان مایوسی کی دلدل میں دھنس جاتا ہے۔ اسے روشن سویرابھی تاریک شام دکھائی دیتا ہے۔ ایسی صورت میں دو چیزیں سہارا دے سکتی ہیں۔ ایک، آپ کا کوئی محسن جو آپ کو دلاسا دے سکے۔ آپ کے اندر چھپی صلاحیتوں کو جلا بخش سکے۔ دوسری چیز، آپ ذہنی فرار اختیار کرلیں،جس سے کچھ حد تک تکلیف کم ہو جاتی ہے۔ علمِ نفسیات میں اسے بیدار خوابی (ڈے ڈریمنگ)کہتے ہیں۔ اس میں انسان خیالی پلاؤ پکاتا ہے۔ اپنے ذہن میں ایک تیار کردہ ماحول کے مطابق ”ذہنی زندگی“ گزارتا ہے۔ خیال ہی خیال میں اپنی مرضی کے ماحول میں موجود رہتا ہے۔ جیل میں موجود قیدی بھی اس عمل کے سہارے جیتے ہیں۔ یہ طرز افلاطون نے بھی اپنایا تھا۔ شیخ چلی بھی ایسا ہی ایک کردار تھا۔
لیکن بیدار خوابی اگر شدت اختیار کرلے، تو ڈھیر سارے مسائل جنم لیتے ہیں۔ بیدار خوابی کا مناسب حد تک استعمال ہی کسی مسئلہ سے ذہنی فرار میں کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔ عزم پختہ ہو، یقین کامل ہو، تو مشکل ترین وقت بھی گزر جاتا ہے۔
یہ انسانی نفسیات ہی ہے کہ اگر وہ چاہے اور خود کو تیار کرے تو ہر مایوسی کو شکست دے سکتا ہے۔ آج مصیبت ہے، کل ٹھل جائے گی۔ کوئی حادثہ میں معذور ہوا، تو کیا ہوا جان تو بچ گئی نا۔ کوئی بہت عزیز وفات پاگیا، تو غم تو ہے، لیکن مرنا توسب کو ہے۔ شکر ہے مرحوم اپنی زندگی بھرپور طریقہ سے تو جی گیا۔ آپ سے خوش ہوکے دنیا سے چلا گیا۔ الغرض، جو ہوتا ہے اس میں اللہ کی رضا شاملِ حال ہوتی ہے۔ ملنے والی تکلیف کو دل و جان سے قبول کرنا چاہیے۔ زندگی پانی کی طرح رواں دواں ہے۔ یہ پلٹ کر نہیں دیکھتی۔ مصائب کا مقابلہ ہی اصل زندگی ہے۔ ہمت باندھیں، جذبات کو سمیٹیں اور بڑھتے جائیں۔ ہمیشہ مایوسی کو شکست دیں اور پُرعزم رہیں۔یاد رہے، اپنی لڑائی خود لڑنی ہے اوراس کے لیے کسی ہتھیار کی نہیں بلکہ تھوڑے سے حوصلہ کی ضرورت ہے۔
قارئین، آج بھی ایسے اساتذہ موجود ہیں جو اپنے طلبہ کو جینے کا گر سکھاتے ہیں۔ مَیں اپنے ہاتھ کی دو انگلیاں ہار کر ذہنی اور جسمانی کرب میں مبتلاتھا، لیکن ہمارے بچپن کے استاد کی طرح اب جوانی میں ملنے والے ایک استاد نے برقی و صوتی پیغامات بھیج کر حوصلہ دیا۔ تغیر وقت کے ساتھ ان کے الفاظ ”دہ نرزویہ“ کی بجائے ”اپنی جنگ خود لڑنی ہے!“تھے۔
یہ الفاظ مجھ میں نئی زندگی پھونک گئے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں