ڈاکٹر محمد طاہر بوستان خیلکالم

ادبی کرونا

اس رات میں نے خبریں سنیں جن میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ، ممکنہ اقدامات اور حفظ ِ ماتقدم کے بغیر کوئی خبر نہیں تھی۔ لائٹ بند کرکے میں لیٹ گیا اور لیٹتے ہی سوگیا۔ خواب میں کیادیکھتا ہوں کہ بہت سے لوگ جن میں ڈاکٹر، مولوی صاحبان، کلرک، اساتذہ، دکان دار، کچھ جان پہچان کے بعض ناآشنا کس مہ پرسی کے عالم میں اِدھر اُدھر غیبی مدد کے لیے سر گرداں تھے۔ اتنے میں مجھے میرے ادیب اور شاعر لوگ بھی نظر آئے۔ مَیں بہت حیران ہوا کہ یہ لوگ ادھر کیا کررہے ہیں؟ چوں کہ لوگوں کا جمِ غفیر تھا اس لیے بعض تو صاف دکھائی دیے، البتہ بعض کی پہچان کرنے میں بے بس رہا۔ مَیں نے دیکھا کہ روزی خان باباؒکیمرہ ہاتھ میں لیے ہر منظر کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیتے۔ ان کے بغل میں سمیع اللہ گرانؔ کھڑے تھے، جن کے ہاتھوں میں کتاب کا مسودہ تھا۔ وہ اسے پڑھ رہے تھے۔ مَیں نے قریب جا کر دریافت کیا، تو پتا چلا کہ وہ مسودہ ان کے کسی شاعر دوست کا تھا جسے وہ چھاپنے کے لیے تیار کررہے تھے۔ ابھی میں ان کے ساتھ کھڑا ہی تھا کہ پیچھے مڑ کر دیکھا، تو حنیف قیس ؔاور ابراہیم خان شبنم ؔکو اپنی طرف آتے دیکھا۔ قیس ؔکچھ کھا رہے تھے۔ نزدیک آکر قیسؔنے مجھے بھی وہ کھانے کی چیز میرے ہاتھوں میں تھما دی۔ مَیں نے جب دیکھا، تو وہ آخروٹ کا گودا (چغجئی)تھا۔ ابراہیم خان شبنم ؔچوں کہ چغجئی نہیں کھا سکتے تھے، لہٰذاوہ ہمیں کرونا وائرس سے نہ ڈرنے کی ترغیب دیتے رہے۔
مَیں لوگوں کو اس حال میں دیکھ کر پریشان ہو تا رہا کہ اچانک مجھے فضل ربی راہیؔ نظر آئے جس کی تمام تر توجہ لیپ ٹاپ پر مرکوزتھی۔ فضل ربی راہی ؔ کے ساتھ ہی امجد علی سحاب ؔعینک لگائے بیٹھے اخبار کا ادارتی صفحہ تیار کرنے میں مصروف تھے۔ مَیں نے جب مڑ کر دوسری طرف دیکھا، تو فضل محمود روخان ؔ سرجیکل ماسک لگائے اک شانِ بے نیازی سے ہماری طرف آرہے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں ”د انتظار آخری لمحہ“ تھی۔ میں اس مصیبت کی گھڑی میں ان کے ساتھ ”انتظار کا آخری لمحہ“کی موجودگی کے بارے میں پوچھنے کے لیے بڑھ ہی رہا تھاکہ اچانک میرا ہاتھ کسی نے پکڑ کر کہا بوستان صاحب کیا حال ہے؟ مَیں نے دیکھا، تو امیر سلطان ؔہاتھ میں سگریٹ سلگائے مجھ سے بغل گیر ہوگئے۔ انہوں نے بغل گیر ہوتے ہوئے میرے کان میں دھیرے سے کہا کہ ہو جائے اک پیک؟ مَیں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے لا حول پڑھ لیا۔ مَیں اپنا ماسک چہرے پر لگانے ہی والا تھا کہ میری نظر سیراج الدین سیراج ؔ پر پڑگئی۔ اس کے کوٹ کی جیب میں مجھے اک چھوٹی سی بوتل نظر آئی۔ امیر سلطان ؔاور سیراج الدین سیراجؔکی آپس میں کانا پھوسی کے بعددونوں وہاں سے سرک گئے۔ مَیں انتہائی حیران و پریشان تھا کہ ایک سفید ریش بابا نے میرے کان میں آہستہ سے کہا:
خوشحالی زان لہ پخپلہ ورکوہ
کہ سوک نہ درکئی تہ خپلہ ورکوہ
میری حیرت کی انتہا۔ سفید ریش بابا عبدا لرحیم روغانےؒ تھے، جو مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ آپ نے سیراج الدین سیراج ؔ اور امیر سلطان ؔکو توکہیں نہیں دیکھا؟ مَیں نے اس سمت اشارہ کیا جس طرف وہ دونوں چلے گئے تھے۔ مَیں سستانے کے لیے بیٹھ ہی گیا تھا کہ 50، 60 کے قریب اوباش لڑکے لمبے اور گھنگھریالے بالوں والے ایک پتلے نوجوان کی قیادت میں آرہے تھے۔ قریب آکر دیکھا تو یہ ریاض احمد حیرانؔ تھے۔ لوگ ان کے ساتھ اس بات پر لڑ رہے تھے کہ کرونا وائرس کی وبا کی خاطر ”نوے ژوند“ کے مریضوں کو چھٹی دی جائے، جب کہ ریاض احمد حیرانؔ نہیں مان رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس میرے مریضوں سے پہلو بچا کر رہتا ہے۔ مَیں ان کے جھگڑے میں ثالث کا کردار ادا کرنے والا تھا کہ اچانک ایک جانی پہچانی آواز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔ اگر آپ کی کوئی نئی کتاب مارکیٹ میں آئی ہے، تو عنایت کیجیے میں اس پر کالم لکھوں گا۔ مَیں نے دیکھا کہ وہ تصدیق اقبال بابو تھے جن کی جھولی بہت ساری کتابوں سے بھری تھی، جن پر وہ کالم لکھنے والے تھے۔ ان کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع ہو نے والا تھا کہ ایک سریلی آواز نے ہم سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ لو بھئی فضل نعیم نعیم ؔ اپنے جاہ و جلال کے ساتھ سر ہلاتے ہوئے کہہ رہے تھے:
کہ می بلھا د ارمانونوجنازے پرتے دی
زڑہ کی می کلکی د فولادو حوصلے پرتے دی
لوگوں پر ایک لمحہ کے لیے فضل نعیم نعیم ؔ کی آواز کا جادو چھا گیا، جس میں وہ اس مشکل گھڑی میں حوصلہ نہ ہارنے کی ترغیب بھی دیتے رہے۔ اچانک میری نظر روح الامین نایاب ؔ پر پڑی جنہیں عمرہ اد اکرنے کے بعد وطن واپس آنے کی پاداش میں قرنطینہ میں داخل کیا گیا ہے۔ ان کے سرہانے کھڑے نور حسین خادم ”زندانِ زیست“ سے چند اشعار پڑھ کر اس پر دم کیاکرتے ہیں۔ مَیں یہ منظر دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں سکندر حیات کسکر ؔاپنے مخصوص انداز میں کرونائی گالیاں دے دے کر حکومت کو کوستے رہے۔ انہیں دلاسا دینے کے لیے ادھیڑ عمر کے شخص، جو مجھے اچھی طرح دکھائی نہیں دیتے، انہیں چائے کا کپ پیش کرتے رہے۔ مَیں اس مشکل میں تھا کہ یا رب، یہ کیا ماجرا ہے کہ اتنے میں میرے کانوں میں رباب بجنے کی آواز آئی۔ ہمایون مسعود دنیا و ما فیہا سے بے خبر رباب کے تاروں کو چھیڑ کر سُر پیدا کرتے رہے۔ مَیں نے سوچا کہ ایک طرف بیٹھ کر ادیبوں اور شاعروں کے کارناموں سے لطف اندوز ہو جاؤں۔ مَیں اس میدانِ پُر آفات سے ایک طرف جانے کے لیے مڑا ہی تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک طرف عطاء اللہ جانؔ شعر و ادب پر فلسفہ جھاڑ رہے ہیں، اور عطاء الرحمان عطاؔ واہ واہ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف لوگ دائرے کی شکل میں کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے۔ مَیں بھی ان لوگوں میں جا گھسا، وہاں دیکھا کہ عثمان اولس یارؔ شمس الاقبال شمس ؔکی تخلیقات لوگوں کو دکھا کر داد وصول کررہے ہیں اور شمس الاقبال شمسؔ ان کے ساتھ بیٹھے خود بھی یہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ مَیں انہماک سے یہ تماشا دیکھ رہا تھا کہ دائیں طرف سے قدرے فاصلے پر مجھے غصے سے بھر پور تقریر سنائی دی، ایسا لگ رہا تھا گویا جھگڑتے ہوئے کوئی گالی دے رہا ہے۔ قریب جاکر دیکھا تو محمد عادل تنہا ؔ چیخ چیخ کر اپنے گاہک کو اس بات پر قائل کررہے تھے کہ میں نے کتاب کی چھپائی کے زیادہ پیسے نہیں لیے۔ اس قضیے کو حل کرنے کے لیے ندیم چراغ ؔسریلی آواز میں اپنے کچھ اشعار پیش کررہے تھے کہ اتنے میں ایک عقلِ کل نچلا بیٹھنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ انہیں سن کر ساتھ میں کھڑے بخت زمین زمینؔاور انور عاطر نے خنجر دکھاتے ہوئے ان سے ”سپنڑسی“ کے معنی پوچھے؟ بس کیا تھا۔مجمع میں جمع سارے لوگ ادھر اُدھر ہولیے۔ مَیں نے اللہ کا شکر ادا کیاکہ چلو یہ جھگڑا تو ختم ہوا۔ مَیں وہاں سے واپس ہوا، کچھ قدم چلا تھا کہ حسین علی حسین ؔ انتہائی پریشانی کی حالت میں مجھ سے بغل گیر ہو کر تقریباً رونے کے انداز میں مجھ سے کہنے لگے: بوستان مَیں نے لوگوں کا کیا بگاڑا ہے کہ سارے میرے دشمن بن گئے؟مَیں انہیں دلاسا دینے کے لیے جملے سوچ رہاتھا کہ ڈاکٹر شیر زمان سیماب ؔ نے انہیں کہا کہ آپ غیرت پر مبنی شاعری کرتے ہیں اور غیرت مند انسان ہیں اس لیے۔ بس اس کے بعد حسین علی حسین ؔ نے آنکھیں پونچھیں۔ حسین علی حسین ؔ کی داد رسی کے لیے میاں حسن حسنؔ، شیر زمین ہمدردؔ، نذر محمد نذرؔ اور امجد علی سورجؔ ہاتھوں میں ڈنڈے لے کر مستعد کھڑے تھے۔ یہ مسئلہ ابھی حل نہیں ہو اتھا کہ علی خان اُمیدؔ اور فیض علی خان فیضؔ ہاتھوں میں انقلاب کے جھنڈے لیے بڑے جوش و خروش سے لوگوں کو کرونا وائرس کے خلاف میدانِ عمل میں نکلنے کی تلقین کرتے رہے۔ وہاں موجود ڈاکٹر اکرام بیتابؔ نے اس خطرناک وائرس کے حملے سے بچنے کے لیے انہیں بہتیرا سمجھایا، مگر انقلابیوں کو کون روکے؟ مجھے کسی نے آواز دی کہ اس طرف آجائیں، مَیں جب اس انجانی آواز کی طرف چلا گیا، توکیادیکھتا ہوں کہ محمد پرویش شاہینؔ کرونا وائرس اور اس کے خاندانوں پر معلومات سے بھر پور لیکچر دے رہے ہیں، ابراہیم دیولئی، خیر الحکیم حکیم زئی اورانجینئر شوکت شرار کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ جو مجھے صحیح طرح نظر نہیں آرہے تھے، بیٹھے غور سے یہ لیکچر سن رہے ہیں جب کہ جہانزیب دلسوز ؔ فیس بُک انجوائے کررہے ہیں۔ وحید اللہ قرارؔ پھڑکتی آنکھوں کے ساتھ کیمرہ لگائے اس مجمع کی ویڈیو بنانے میں مصروف ہیں۔ اچانک کرن خان نے میری طرف بڑھتے ہوئے مجھ سے محمد گل منصور ؔ کے بارے میں پوچھا، مجھے اس کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔ ساتھ میں کھڑے ضیاء الدین ضیا نے ہمیں بتا یا کہ وہ اس انبوہِ پُرآفات میں ایک طرف بیٹھے اپنے محبوب کی یاد میں خاک چھان رہے ہیں۔ میری نظر دریاب دولت خیلؔ پر پڑی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ اس موقع پر ایک ادبی پروگرام کی شمولیت کے پرچے تقسیم کرہے ہیں، جب کہ عادل ارمانؔ اور ان کے کچھ ساتھی باقاعدہ طور پر کتابوں کی رونمائی کے لیے ملاقاتیں کرہے ہیں۔ مَیں نے دیکھا کہ ایک اونچے ٹیلے پر کھڑے ظفر علی نازؔاس مشکل گھڑ ی میں لوگوں کو منظم کرنے اور انہیں آرام سے بیٹھنے کے لیے اپنے مخصوص انداز میں کمپیئرنگ کرتے ہیں۔ اچانک پہلو بدلتے ہوئے مَیں نیند سے جاگ اٹھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس مختصر خواب میں میری ملاقات مذکورہ شعرا اور ادبی شخصیات سے ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو خیریت سے رکھے، آمین!
(تمام دوستوں سے معذرت کے ساتھ)

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں