ایچ ایم کالامیکالم

جرم کے آگے غربت کا جواز……!

مینگورہ شہر کی سڑکوں پر جہاں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی وجہ سے جنم لینے والی بے ہنگم ٹریفک شہریوں کا ناک میں دم کرچکی ہے، وہاں دکان داروں اور ریڑھی بانوں نے سیاسی پشت پناہی میں پوری کی پوری سڑک پر قبضہ جما رکھا ہے۔ یہاں کے منتخب نمائندے اپنی سیاسی دکان چمکانے کی خاطر ”غربت کارڈ“ کھیل کر تاجروں اور چھوٹے دکان داروں کی پشت پناہی کر رہے ہیں، جو سوات کو ٹریفک کے حوالہ سے مسائل سے بھرا شہر بنا چکے ہیں۔
قبضہ مافیاز کو سیاسی آشیرباد اس لیے حاصل ہے کہ مینگورہ شہر میں بڑا ”ووٹ بینک“ کاروباری لوگوں کا ہے۔
مینگورہ شہر بالخصوص تحصیلِ بابوزئی کی قسمت میں جب کوئی بھی ایمان دار اور واضح پالیسی ساز بیوروکریٹ آجاتا ہے، تو وہ ان سیاسی مداریوں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگتا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال سابق اسسٹنٹ کمشنر تحصیلِ بابوزئی فرخ عتیق صاحب ہیں، جب انہوں نے مینگورہ شہر کی سڑکوں پر سے قبضہ مافیا کا راج ختم کردیا، مضرِ صحت اشیا کا نام و نشان ختم کردیا اور قانون کی پاس داری اور شہریوں کی مشکلات کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا، تو یہاں کے ایم پی اے اور ایم این اے کے سینے پر سانپ لوٹنے لگا اور سیاسی مداخلت کرکے ان کا تبادلہ کرکے ہی دم لیا۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ فرخ عتیق صاحب نے اس وقت چارج سنبھالا تھا جب خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی جیسی ”سیاسی مداخلت سے پاک“ پارٹی کی حکومت تھی۔
مینگورہ شہر کے چند صحافی مذکورہ ایم پی ایز اور ایم این ایز کا باقاعدہ نام لے کر فرخ عقیق صاحب کے سیاسی تبادلے پر خبریں چھاپتے رہے، مگر مجال تھی کہ صوبائی حکومت اپنے ممبران سے وضاحت تک ہی طلب کرلیتے۔ شائد یہ فرخ عقیق صاحب کی خوش قسمتی اور اہلِ سوات کی بدقسمتی تھی کہ وہ اپنی ایمانداری کی وجہ سے کوئٹہ میں کمشنر کے عہدے پر فائز ہوگئے اور تحصیلِ بابوزئی میں ایک بار پھر مختلف مافیے سرگرم ہوگئے۔
قارئین، جب بھی ٹریفک میں رکاوٹ کے حوالے سے ان منتخب نمائندوں سے پوچھا جاتا ہے کہ خوبصورت سوات کے تمام دیگر مسائل کی جڑ”ٹریفک“ ہے، تو کیوں سڑکوں پر چٹائیاں بچھاکر کاروبار کرنے اور ریڑھیوں کی قطاریں لگانے کی اجازت دی جاتی ہے؟ اس کے جوان میں ایک ”مضحکہ خیز“تاویل پیش کی جاتی ہے کہ ملک میں غربت ہے اور اگر اس حوالہ سے سختی کی جائے گی،تو شہریوں کے چولہے ٹھنڈے پڑ جائیں گے۔
تو جناب! اب تو وفاق سے نوکریوں کی بارشیں ہونے کی خبریں آرہی ہیں، تو پھر چند بوندیں اہلِ سوات پر بھی برسا دیں۔
قارئین، اس ملک میں کوئی قانون اور آئین بھی موجود ہے، اندھیر نگری چوپٹ راج تھوڑی ہے! جس طرح غربت کو جواز بناکر منشیات فروشی اور ڈکیتی کی قانون اجازت نہیں دیتا، اسی طرح سڑکوں پر قبضے کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ منشیات فروشی اور ڈاکا ڈالنے کی طرح تجاوزات بھی تو غیر قانونی ہوا کرتے ہیں۔
اب ذرا اس بات پر بھی غور کیجیے کہ نہ صرف سوات کے بالائی پسماندہ علاقوں بلکہ ضلع شانگلہ اور بونیر کے لوگوں کا دارومدار بھی یہاں کے اسپتالوں، تعلیمی اداروں اور دیگر تمام اہم سرکاری اداروں پر ہے۔ تو پھر کس طرح غربت کو جواز بناکر تین اضلاع اور ملک بھر سے آئے ہوئے سیاحوں کو مشکلات میں ڈالا جا رہا ہے!
اگر غربت سب سے بڑا مسئلہ ہے، تو پھر کیوں نہ مینگورہ شہر کے چوراہوں پر دن دہاڑے منشیات فروشی اور رات کو ڈاکا ڈالنے کی اجازت دی جائے، کیوں کہ وہ بھی تو غربت اور محرومی ختم کرنے کی وجہ سے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
جاتے جاتے یہی کہوں گا کہ سوات کی انتظامیہ اور منتخب نمائندے اپنے گریبان میں بھی جھانکیں کہ دیگر علاقوں سے ایمبولینس گاڑی مریضوں کو لے کر سنٹرل اور سیدو اسپتال تک زندہ نہیں پہنچا پاتی، تو کیا اس کا حل آپ کی ذمہ داری نہیں؟
جرم کے آگے غربت کا کوئی جواز نہیں اور سرکاری سڑکوں پر قبضہ جمانا جرم نہیں سنگین جرم ہے، اس لیے ہوش کے ناخن لینا ہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ بھئی، یہ انسانوں کا معاشرہ ہے، یہاں انسانوں ہی کا قانون نافذ کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ جنگل کا قانون!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں