زبیر توروالیکالم

فیس بک اور ناخواندہ معاشرے

جب فیس بک اول اول متعارف ہوا، تو لوگوں نے اپنی ”آئی ڈیز“ بناکر دوسرے لوگوں کو فیس بک فرینڈز بنانا شروع کیا۔ فیس بکی دوستوں کی تعداد میں ایک مقابلہ بھی شروع ہوا۔ پہلے پہل اس کی رسائی صرف ان لوگوں تک تھی جن کے پاس کمپیوٹر تھا اور جن کو کسی طرح ڈی ایس ایل کی سہولت مہیا تھی، مگر جب موبائل فون کمپنیوں نے تیز نیٹ ورک متعارف کیے اور دنیا میں سمارٹ فون کی بہتات ہوگئی، تو اکثریت کو فیس بک تک رسائی حاصل ہوگئی۔ جلد لوگوں کے ٹائم لائنز 5000 فیس بکی دوستوں سے بھر گئے۔
آہستہ آہستہ لوگوں کے نظریات یا ان کی مبہم جھلکیاں ان کے فیس بک ٹائم لائن پر نمودار ہونے لگیں اور بتدریج ان کی بنیاد پر نئی صف بندیاں شروع ہوگئیں۔ اس پلیٹ فارم پر ایک عام خواندہ اور دنیا کے مشہور فلسفی اور دانش ور ایک ساتھ نظر آنے لگے۔ یوں نظریات اور سیاست کی بنیاد پر تلخیاں بڑھنے لگیں۔ عام خواندہ فرد بھی خود کو دانش ور سمجھنے لگا اور دانش ور اور فلسفی حضرات نے اس صفحے کے ذریعے اپنی بات لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی، مگر نتیجہ کیا نکلتا……! شہرت، شناخت، ساکھ اور پروپیگنڈا کی ایک جنگ شروع ہوگئی۔ شور بڑھ گیا، معلومات بڑھ گئی، ساتھ ٹکراؤ بھی بڑھ گیا۔ لوگوں نے اس پلیٹ فارم کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا۔ جن افلاطونی متاثرین کو تصویر اور لاؤڈ سپیکر پر اعتراض تھا، انہوں نے بھی فیس بک اور بعد میں یوٹیوب کا خوب سہارا لیا۔ اب کتابوں کی دنیا مر گئی اور جس نے اس جعلی اور ادھوری کتاب کے نیم خواندہ، مبہم اور مختصر صفحات سے زیادہ فیض حاصل کیا وہی کامران ٹھہرا۔ صورتِ حال یوں ہوگئی کہ اس صفحے پر کسی نئے وارد شدہ نے اگلے کے ماضی، اس کی ذات اور جد و جہد کو یکسر بھول کر اس بارے رائے بنالی۔ ان فیس بکی نومولودوں کی دنیا یہاں سے شروع ہوئی۔ نئی صف بندیاں ہوگئیں۔ نئے مقابلے شروع ہوگئے۔ لوگوں نے مخالفین کی دھجیاں اڑانا شروع کیا۔ اس کا مزہ اور فائدہ کاروباری دنیا نے خوب لیا۔ صارفین کی اس طرح جنگوں سے انہی کاروباری لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔
ہم جیسے ناخواندہ/ غیر تعلیم یافتہ معاشروں کے لیے سوشل میڈیا انتشار، ہیجان اور جھوٹ کے سوا کچھ نہ دے سکا۔ ایک دنیا مانتی ہے کہ میڈیا جھوٹ اور پرپیگنڈے کا آلہ ہے اور اس سلسلے میں سوشل میڈیا تو مکمل بے ضابطہ ہے۔ مگر کیا کریں ……! دکھ اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمارے معاشروں میں کئی ناخواندہ یا نیم خواندہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جو بات فیس بک پر کہی جائے وہ سچ ہوتی ہے۔ دیہات میں لوگوں کو یہ کہتے سنتے ہیں کہ فلاں بات سچ ہے کہ یہ انٹرنیٹ پر آئی ہے اور انٹرنیٹ سے ان کی مراد فیس بک ہی ہوتا ہے۔
کیا اچھے دن تھے جب ماسٹر سطح کے تعلیم یافتہ بھی کہتے، مجھے فیس بک کی باتیں مت کرو۔ میں نے یہ پڑھی ہے۔ میرے پاس الماری میں پڑی ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں