کالمگلینہ نعیم

ہمیں جیت کا سلیقہ ہے، نہ ہار کا

مانا کہ ہم میچ جیت چکے۔ خوشی مجھے بھی بہت تھی۔ کیوں کہ جس انداز سے یہ میچ جیتا گیا، وہ واقعی لائقِ تحسین ہے۔ مَیں بھی اپنے ہیروز بابر اعظم اور رضوان صاحب کی انتہائی مشکور ہوں۔ مجھے بھی آپ سب پہ فخر محسوس ہو رہا ہے۔ میری دعا ہے کہ یہ جیت برقرار رہے اور ورلڈ کپ ہمارے نام ہو، مگر میرے لوگوں کے رویے نے مجھے خوشی محسوس کرنے سے زیادہ حیرت میں ڈال دیا۔ انڈیا ہمیں ہر ورلڈ کپ میں ہراتا چلا آرہا ہے۔ اس تاریخ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ جیت بڑی بات نہیں،اس کو برقرار رکھنا اصل کام ہے۔ کبھی ہار کر ہم شرمندہ ہوجاتے ہیں، کبھی جیت کر ہمارے سر فخر سے بلند ہوجاتے ہیں۔میرا اصل مقصد یہی ہے کہ جیت کی خوشی اتنی نہیں منانی چاہیے کہ مقابل کی دل شکنی ہوجائے، ان کی عزتِ نفس مجروح ہو جائے بلکہ سجدہئ شکر بجا لا کر خاموش ہو جانا چاہیے اور اپنی اسی کامیابی کو برقرار رکھنے کی پلاننگ کرنی چاہیے۔ کھلاڑی امن کے سفیر ہوتے ہیں۔ ان کو امن پھیلانے دیں۔ نفرتیں بانٹنا انتہائی آسان ہے، مگر نفرتیں مٹانا مشکل ہے۔
قارئین، جتنے پیسے مینگورہ سوات میں آتش بازی، ہوائی فائرنگ پر خراب کردیے گئے، اتنے پیسوں سے سو یتیموں کی کفالت اور تعلیم و تربیت ہو سکتی تھی۔ قریب ہی کئی ہسپتال ہیں، ان میں موجود کسی مریض کو پیسے دے دیتے۔ ہمارے علاقے میں تو سیکڑوں بھیک منگے ہیں۔ کسی کی جولی بھر دیتے۔ دعائیں لیتے کسی غریب کی۔نجانے کتنے لوگ کل آپ کی وجہ سے کراہے ہوں گے، کتنے بیماروں کی بددعا لی ہوگی……! نجانے کتنے لوگ بھوکے سوئے ہوں گے! کتنے یتیموں کا چولہا ٹھنڈا پڑا ہوگا، کبھی اس طرف بھی سوچیے گا۔
قارئین، میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ پاکستان کی جیت کی خوشی میں فائرنگ کر کے کسی کا بھی ضمیر مطمئن نہیں ہوگا۔ وقتی خوشی ہوگی…… لیکن دعوے سے کہتی ہوں کہ کسی بے سہارا کا سہارا بنیں، خوشی بھی ہوگی اور ضمیر بھی مطمئن ہوگا۔ کسی روتے کو ہنسانا ہی اصل کام ہے۔ زندگی اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لے جینے کا نام ہے۔ ضعیف العمر، بیماروں اور بوڑھوں کو تکلیف دے کر خوشی منانے والو……! میری اس تحریر پر سوچیے گا ضرور!

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں