چیف ایڈیٹر : فیاض ظفر
ایڈیٹر : امجد علی سحاب
ریزیڈنٹ ایڈیٹر:
عطاءاللہ خان بابا
کالمگلینہ نعیم

ہر گھر سے تور گل نکلے گا، تم کتنے تور گل ماروگے!

آج کل سوشل میڈیا پر ’’تور گل‘‘ کا توتی بول رہا ہے۔ ایک ایسا شخص جو سیاست کے کالے صفحات پر بولنے سے خود کو روک نہیں پارہا۔،
تور گل، یوسف زئی خاندان سے تعلق رکھنے والا، آنکھیں کھولے رکھے ہوئے اشخاص میں سے ایک ہے، جس نے وہ نہیں دیکھا جو دکھایا جا رہا ہے، بلکہ وہ دیکھا جسے آج تک اچھے اچھے نظر انداز کرتے چلے آرہے ہیں۔ تور گل بارش کی پہلی بوند کی طرح ہے، جس سے پہلے صرف بجلی گرج اور چمک رہی تھی، لیکن بارش نہیں ہو رہی تھی۔
تاریخ میں آواز اٹھانے والے جیسے عافیہ صدیقی یا ایمل کانسی کے انجام سے زمانہ واقف ہے۔ اس لیے منظر عام پہ نہ آکر وہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے ساتھ بھلائی کر رہا ہے۔ ورنہ یہاں اقتدار کی ہوس میں مبتلا اشرافیہ کے آگے انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں۔
تور گل کے کہنے کے مطابق ابتدا ہی سے عوام کا حق مارا جارہا ہے اور عوام کسی معجزے کے منتظر انگشتِ بدنداں بیٹھے ہیں کہ ان کے لیے بھی آسمان سے کوئی موسیٰ اُتر آئے۔
تور گل کے مطابق کبھی نوکریوں کی تلاش میں، کبھی اقرباء پروری کی آڑ میں، کبھی سیلاب کے نام پر اور کبھی سیلاب زدہ لوگوں کے نام پر پیسے نکال کر ایم پی ایز و ایم این ایز اپنے اکاؤنٹس بھرتے ہیں۔ شاید ان کو ہم عوام ایک سوئی ہوئی قوم دکھتے ہیں، تبھی تو صرف اپنی زندگیاں سنوارتے جارہے ہیں۔
قارئین! اب آئیے تور گل کی سوشل میڈیا پر دی گئی کچھ پوسٹوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ تور گل کے مطابق ہر بر سرِ اقتدار شخص اپنے مفاد کی جنگ لڑ رہا ہے۔ کہیں بنا ٹیسٹ کے اپنوں کو اعلا عہدوں پر فائز کیا جارہا ہے، تو کہیں تنخواہ لینے والے خالی کرسی کے عہدے دار پر انگلی اٹھائی جارہی ہے۔ کہیں نوکریوں کے فروخت پہ غور کرنے کا کہا جارہا ہے، تو کہیں عوام کے نام پر نکالے گئے پیسوں کے حساب کی بات ہو رہی ہے۔ کہیں ناپختہ سڑکوں، واٹر سپلائی، دیواروں پر ڈیزائن اوراس قبیل کی مختلف سکیموں کے لیے نکالی گئی موٹی رقوم کے گم ہوجانے پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں، تو کہیں منظور شدہ ترقیاتی کاموں کا وجود ڈھونڈا جا رہا ہے۔ کہیں کرپشن کی داستانیں سنائی جا رہی ہیں، تو کہیں عوام کے پیسوں سے خریدے گئے لیڈروں کے اثاثوں کی بات کی جا رہی ہے۔ کہیں تور گل کو ملنے والی دھمکیوں کی بات ہو رہی ہے، تو کہیں ان کی کردار کشی کی کوشش جاری ہے۔
اب تور گل ایک تحریک کی شکل اختیار کرگیا ہے، وہ بالکل اکیلا نہیں۔
قارئین! تور گل کی بات غیر یقینی تب ہوتی، جب اس کے ساتھ دلیل نہ ہوتی۔ وہ دشمنی کی آڑ میں تب بولتا جب اس کی تحریر کا مرکز کوئی ایک بندہ ہوتا، یا وہ صرف اک خاص علاقے کے لیے بولتا۔ تور گل کی آواز محض سستی شہرت کا ذریعہ نہیں،نہ تورگل کوئی مسخرہ ہی ہے…… بلکہ وہ پوری سوات کی آواز ہے۔
قارئین! خدارا، ووٹ دینے میں محتاط رہیے۔ آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا، کب تک نا اہل لوگ عہدے دار بنتے رہیں گے، کب تک عوام اپنے حقوق سے محروم ہوتے رہیں گے، کب تک غریب عوام کو نظر انداز کیا جاتا رہے گا، کب تک تعلیم یافتہ لوگوں کے اوپر ان پڑھ گنوار حکومت کرتے رہیں گے، کب تک غریب ظلم کی چکی میں پستے رہیں گے، کب تک ’’ تبدیلی‘‘ کی آس لیے ہم عوام مرتے رہیں گے، کب تک ایک اور عمر کی تلاش رہے گی؟
بقولِ شاعر:
 کرسی ہے، تمھارا یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے؟

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں