روح الامین نایابؔکالم

منگلور ڈاک خانہ

قارئین! پچھلے ہفتے مَیں ’’نواز شریف کڈنی ہسپتال‘‘ میں اپنی فیملی کے کچھ افراد کے میڈیکل ٹسٹوں میں مصروف تھا کہ اتنے میں میرے موبایل پر ایک نامعلوم نمبر سے کال آئی۔ کال ریسیو کی، تو ایک صاحب نے مطلع کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’نایابؔ صاحب ڈاک خانے پر آپ کی ایک کتاب آئی ہے۔ آپ چارباغ ڈاک خانے آکر وصول فرمائیں۔‘‘
یہ سنتے ہی مَیں نے حیران ہوکر پوچھا کہ چارباغ کیوں؟ منگلور ڈاک خانے بھیج دیں، مَیں وہاں سے لے لوں گا۔ موصوف نے جواباً فرمایا کہ منگلور ڈاک خانہ بند ہوچکا ہے۔ آپ کو اپنی ڈاک کی وصولی کے لیے چارباغ آنا ہی پڑے گا…… بلکہ ہر ’’منگلوری‘‘ کو ڈاک خانے کے کسی بھی کام کے لیے ڈھائی کلومیٹر دور چارباغ کی یاترا کرنی پڑے گی۔
مَیں تھوڑی دیر کے لیے پریشان ہوگیا کہ یہ کیا معاملہ ہے، آخر ہمارا قصور کیا ہے، آخر ہم نے کون سا گناہ کیا ہے؟ پرانے وقتوں سے (جب ہم سکول میں پڑھتے تھے) یہ ڈاک خانہ ادھر قایم تھا اور باقاعدگی سے کام کر رہا تھا۔ کتابیں، منی آرڈر، پارسل، خطوط، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی تمام خط و کتابت منگلور ڈاکخانے کے ذریعے ہوتی تھی۔ لوگ جاتے تھے اور آرام سے اپنی ڈاک وصول کرتے تھے۔ بعض اوقات اگر کسی خط، کتاب یا پارسل میں تاخیر ہوجاتی ہے، تو باقاعدہ طور پر کال آتی تھی۔ اب یہ اچانک کون سی آفت ٹوٹ پڑی کہ برسوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا اور معاملہ ’’چارباغ‘‘ تک چلا گیا۔
قارئین! تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ بھی تحریکِ انصاف کے خود کو ’’انصافین‘‘ کہلوانے والوں کے کار ہائے نمایاں ہیں۔ بدقسمتی سے مذکورہ ڈاک خانہ عرصۂ دراز سے منگلور بازار کی اُس دوکان میں واقع تھا جس کے مالک کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے۔ لہٰذا تمام ڈاک کے ساتھ ساتھ احساس پروگرام کے لفافے، سکول کی لڑکیوں کے لیے نقد وظیفوں کے پیسے اور اس طرح دیگر سرکاری امور اس موصوف کے ذریعے نمٹتے تھے۔
جناب فضل غفار اس علاقے میں اپنی سیاسی سرگرمیوں اور غیر سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک مشہور و معروف شخصیت ہیں۔ تعلق اساتذہ برادری سے ہے اور منگلور ہائی سکول میں ڈِرل ماسٹر کے طور پر اپنے فرایض نبھا رہے ہیں۔ منگلور قومی امن جرگے کے آج کل چیئرمین بھی ہیں اور اُس میں خلوص اور سرگرمی سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
ہمارے ’’انصافین‘‘ اوپر وزیراعظم سے لے کر نیچے وزرا اور پارٹی اراکین تک تنگ نظری اور تقسیم در تقسیم کا بری طرح شکار ہیں۔ لہٰذا یہ تو بہت بڑی زیادتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا ایک ہمدرد شخص یہ عوامی فریضہ سرانجام دیتا چلا آرہا تھا۔ شاید اُن کے خیال میں آنے والے بلدیاتی انتخابات میں ’’جیتنے‘‘ کے لیے ضروری تھا کہ فضل غفار سے جلد از جلد مذکورہ خدمات لینی چاہیے تھیں۔
ارے جناب! کوئی بات نہیں۔ بالکل اُس سے یہ خدمات چھین لیں۔ آپ بس یہی تو کرسکتے ہیں…… لیکن خدارا! کوئی متبادل بندوبست تو پہلے سے کریں۔ تاکہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔ سب سے اچھی اور اخلاقی بات تو یہ ہونی چاہیے تھی کہ حکومت ایک باقاعدہ ڈاک خانہ کی منظوری دیتی۔ کم از کم ایک دکان کا بندوبست کرتی۔ ایک پوسٹ ماسٹر اور پوسٹ مین کو بھرتی کرتی اور اس طرح منگلور میں باقاعدہ ایک ڈاک خانے کا اہتمام اور افتتاح کیا جانا چاہیے تھا، جو عرصۂ دراز سے یہاں کے عوام کا ایک دیرینہ مطالبہ چلا آ رہا ہے۔
قارئین، ان سطور کے ذریعے ہم بہت احترام سے ’’تبدیلی والوں‘‘ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اس طریقۂ کار سے آپ لوگ بلدیاتی انتخابات جیت تو نہیں سکتے، البتہ ہار ضرور جائیں گے۔
خدا کے بندو! ذرا سوچو…… جب مجھے معمولی ایک معمولی ڈاک کی وصولی کے لیے ڈھائی کلومیٹر دور چارباغ جانا پڑے گا، تو میں کیسے آپ کو ووٹ دوں گا؟ آپ لوگوں نے ایک اچھی خاصی سہولت ہم سے چھین لی اور متبادل میں کوئی بندوبست بھی نہ کرپائے۔ آپ ذرا سوچیے…… جب 700 روپیہ بجلی بِل پر میں 1500 روپے ’’فیول پرایس ایڈجسٹمنٹ‘‘ کی شکل میں بھتا ادا کروں گا، تو میں کیسے اور کیوں ’’تحریکِ انصاف‘‘ کو ووٹ دوں گا؟ جب کہ اصولی اور قانونی طور پر خیبر پختونخوا کے عوام اس بھتے سے مبرا اور آزاد ہیں۔ کیوں کہ ہم بجلی پیدا کرنے کے لیے اچھا خاصا پانی فراہم کررہے ہیں۔ تربیلا، ورسک، غازی بروتھا، درگئی، ملاکنڈ کے بجلی ڈیم ہماری زمین پر بنے ہیں اور ہمارے پانی سے چل رہے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا اپنی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرتا ہے اور دوسرے صوبوں کو دیتا ہے۔ اسی مد میں وفاق، صوبہ پختونخوا کا 332 ارب روپے کا مقروض ہے…… جس میں ابھی چند دن پہلے صرف 2 ارب روپے وصول ہوچکے ہیں، تو پھر ’’فیول ایڈجسٹمنٹ‘‘ کا ٹیکس ہم سے کس کھاتے میں وصول کیا جا رہا ہے؟ محترم پرویز خٹک نے صحیح پوچھا ہے۔ امید ہے اس طرح کچھ اور ’’انصافین‘‘ کا ضمیر بھی جلد ہی جاگ جائے گا۔
قارئین، موجودہ تحریکِ انصاف کی ضلعی قیادت، مقامی راہنماؤں خواہ صوبائی ہوں یا قومی…… سے درخواست ہے کہ برائے مہربانی منگلور ڈاک خانے کا مسئلہ جلد از جلد حل کردیں۔ عوام کو تکلیف کا سامنا ہے۔ بعض ضروری کاغذات کے تاخیر سے ملنے میں متعلقہ افراد کا نقصان ہوسکتا ہے۔ تنگ نظری، حسد، ذاتی اور سیاسی مفادات کو ایک طرف رکھ کر خالص علاقائی اور عوامی مفاد کا سوچیں۔ اسی میں بہتری بھی ہے اور کامیابی بھی۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں