ساجد امانکالم

مینگورہ کا بنگالی خاندان

  نعیم اختر صاحب کا مشکور ہوں جنھوں نے مینگورہ بنگالی کورنئی (مینگورہ بنگالی خاندان) کا تعارف بہت آسان اور سادہ سا کیا ہے۔ یقینا مینگورہ شہر کے نوجوانوں کے لیے یہ تعارف آسانی پیدا کرے گا۔
یحییٰ خان اس ’’کورنئی‘‘ (خاندان) کی بنیاد رکھنے والے تھے، جن کے تین بیٹے تھے۔ ان کے نام اجڑ خان، شمشی خان اور چاچا کریم بخش ہیں۔
اجڑ خان کے بیٹوں کے نام محمد اسماعیل، محمد اسحاق اور محمد داؤد باجا ہیں۔ دوسری شریکِ حیات سے ان کے دو بیٹے تھے، جن کے نام عثمان غنی اور فضل غنی ہیں۔
’’شمشی خان کاکا‘‘ کا بیٹا کامران خان دادا تھا۔
چاچا کریم بخش کے بیٹوں کے نام لطیف خان اور خدا بخش ہیں۔
محمد اسماعیل سیٹھ کے 8 بیٹوں کے نام سلیمان، موسیٰ، برکت، یعقوب، شعیب، محمد عالم، محبوب عالم اور نور عالم ہیں۔
محمد اسحاق کے 7 بیٹوں کے نام رحمت علی، محمد ابراہیم، نواب علی، سلطان یوسف، یونس، ہدایت اللہ اور عطاء اللہ ہیں۔
محمد داؤد باجا کے 4 بیٹوں کے نام سلیم اختر، نعیم اختر، علیم اختر اور ندیم اختر ہیں۔
عثمان غنی کے 2 بیٹوں کے نام فیض علی خان اور پرویز ہیں۔
فضل غنی کے 2 بیٹوں کے نام فضل ہادی اور فضل ربی ہیں۔
اب اس خاندان میں مزید رشتہ داریوں، شادیوں نے خاندان کو اور یک جا کیے رکھا ہے۔
بنگالی خاندان کی اپنی تاریخ ہے۔ یوسف زئی قبائل کی آمد سے پہلے ہی یہ خاندان سوات میں موجود تھا، جس کے مختلف گھرانے بنے، جو پورے سوات میں موجود ہیں، ریاستِ سوات کے قیام میں ان کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ مالی مدد اور معاشی خوش حالی میں ان کا کلیدی ہے۔
یہاں یہ خیال رہے کہ اکثر لوگ زردار، غمے خاندان، شیر داد، کریم داد، پیر داد اور مانزئی خاندان کو اور محمد رحمان، کند خونہ گل کو ایک خاندان سمجھتے ہیں۔ دراصل یہ الگ الگ تاریخ رکھتے ہیں، مگر سب مینگورہ کے پرانے رہنے والے ہیں۔ آپس میں رشتہ داریاں ہوئی ہیں، مگر غمے خاندان کا بنیادی تعلق بونیر سے ہے، بنگالی خاندان کا تعلق سوات سے ہے اور مانزئی کا تعلق چملہ سے ہے۔
یحییٰ خان کے خاندان میں سب سے پہلے چاچا کریم بخش نے سیاست میں حصہ لیا۔ والی صاحب کے مشاورتی کونسل کے ممبر رہے۔ پھر سرخ پوش تحریک میں خادم بنے۔ کامران دادا بھی خدائی خدمت گار تحریک کا حصہ رہے۔ باچا خان کے پوری زندگی پیروکار رہے۔ عدم تشدد، علم کا حصول اور شعور و آگہی کے لیے جدوجہد کی۔ چاچا کریم بخش اور کامران دادا اپنے وسائل سے طلبہ اور سکولوں کے لیے کتب اور تعلیمی اخراجات برداشت کرتے رہے۔ ان کے سینے میں قوم کے لیے ایک درد اور جذبہ تھا۔ سیدو ہسپتال میں ملاکنڈ ڈویژن کا پہلا بلڈ بینک قائم کیا ، جو چاچا کریم بخش نے اپنے بھائی شمشی خان کاکا کے نام کیا۔ ٹی بی ایک مہلک ترین مرض تھا۔ ڈاکٹر روشن ہلال (مرحوم) کے ساتھ مل کر ٹی بی کے خاتمے کے لیے ادویہ کی مفت فراہمی یقینی بنائی۔ اس کے علاوہ چاچا کریم بخش پرانی مسجدوں کو جدید طرزِ تعمیر دیا کرتے تھے۔ اُن کا بیٹا لطیف خود کام کی نگرانی کرتے، چاچا اور کامران دادا بلا ناغہ معائنہ کرتے۔ سرکاری سکولوں میں رزلٹ آتے ہی کامران دادا کے حجرے میں بچوں اور والدین کا رش لگ جاتا اور وہیں سے کتب کی رسید ملتی۔ چاچا کریم بخش کا انتقال 1988ء میں ہوا۔ اس وقت کتابوں کا بِل 5لاکھ روپے تھا، جو ایک خطیر رقم تھی۔
کامران دادا کے بیٹے رفیع الملک نے سیاست میں حصہ لیا۔ رفیع الملک اپنے خاندان کا روشن چہرہ ہے۔ شجاع الملک خان سنیٹر ریٹائر ہوئے۔ ناصر الملک خان چیف جسٹس اور پھر نگران وزیرِاعظم رہے۔ اب ڈاکٹر شیر باز رفیع الملک باقاعدہ سیاست میں آئے ہیں۔ باقی خاندان معاشرتی خدمات میں تو پیش پیش ہے، مگر سیاست سے خود کو دور رکھا ہے۔ اس خاندان نے ریاستِ سوات کے قیام، تعمیر اور معاشرتی خدمات (تعلیمی، صحت) کے میدان میں بے پناہ حصہ ڈالا، مگر افسوس کہ مینگورہ سوات نے بدلے میں اس خاندان کو آگے بڑھ کر پذیرائی نہیں دی۔
ریاستِ سوات نے اختلافات پر ’’کانگریسی‘‘ طعنہ دیا، زمین تنگ کی۔ جہاں والی صاحب کا حکم تھا کہ جو کامران کہے گا، ساتھ ’’خان‘‘ ضرور کہے گا، ورنہ جرمانہ ہوگا۔ اس طرز کا حکم دو لوگوں کے لیے آیا تھا۔ عبدالحلیم ایڈوکیٹ (مشر حلیم صاحب) کے نام کے ساتھ ’’صاحب‘‘ لکھنا اور بولنا سرکاری طور پر لازم قرار پایا تھا۔ اس طرح کامران دادا کے نام کے ساتھ ’’خان‘‘ لکھنا اور بولنا بھی لازم تھا، مگر پھر ان کو نسلی تعصب کا شکار بنایا گیا۔ ’’بنگالی‘‘ اور ’’غیر مقامی‘‘ قرار دیا گیا، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
سوات کے حقیقی باشندوں کو ’’ریڈ انڈین‘‘ بنانے کی شعوری کوشش کی گئی، مگر اس خاندان نے نہ رویے سے اور نہ الفاظ سے کسی قسم ناگواری ظاہر کی۔ مٹی اور لوگوں سے محبت میں سماجی اور معاشرتی خدمات جاری رکھے۔ اخلاقیات کا معیار بلند رکھا۔ لوگوں کے ساتھ ان کا تعلق اور خلوص ویسے کا ویسا ہی رہا۔
میرے خیال میں ڈھیر سارا پانی پلوں کے نیچے سے گزر گیا ہے۔ ضروری ہے کہ ہم بہ حیثیت معاشرہ ’’بنگالی کورنئی‘‘ کو خراجِ تحسین پیش کریں۔ ان کے اٹوٹ تعلق کو سلام پیش کریں۔ ان کی خدمات کا سرِ عام اعتراف کریں اور بدقسمتی سے ناپسندیدہ رویوں پر ندامت کا اظہار کریں۔ ہم اپنی نئی نسل کو سچ کہیں ، سچ بولنے اور سننے کی عادت ڈالیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں