فضل رازق شہابکالم

قلعہ وال

میں یہی کوئی گیارہ بارہ سال کا لڑکا تھا۔ ان دنوں ہم ہائی سکول شگئی میں پڑھتے تھے۔ ابھی سنٹرل جیل سیدوشریف کو سکول میں تبدیل کرنے کا عمل جاری تھا۔ ہمیں شگئی تک افسر آباد سے روزانہ کم از کم چھے کلومیٹر آنا جانا پڑتا تھا۔ ہمارے گھر کے برآمدے میں غلہ رکھنے کے گارے سے بنے ہوئے دو بڑے ’’کنڈؤ‘‘ بنے ہوئے تھے۔ ان سے گندم یا جوار نکالنے کے لیے ’’مورئی‘‘ بنے ہوتے تھے۔ ان موریوں میں مٹی ہی کی بنی ہوئی چیزیں ہوتی تھیں، جو اُن موریوں میں پلگ کی طرح لگائی جاتی تھیں۔ ایک صبح جب ہم سکول جانے کے لیے تیار ہورہے تھے۔ سردیوں کا موسم تھا، گھر کے لوگ کمرے کے اندر فرشی چولہے کے گرد بیٹھے آگ تاپ رہے تھے۔ میں اُونی چادر اوڑھ کر برآمدے میں آیا، تو اچانک شیطان سے ملاقات ہوگئی۔ اس نے مجھ سے کہا، دیکھ سب اندر بیٹھے ہیں۔ جولی میں تھوڑے سے جوار نکالو۔ سکول جاتے ہوئے رستے میں رحمدل ماما کی دوکان پر جاکر فروخت کرو اور مزے سے ’’بخت ولی‘‘ سے برفی کے ڈلے خرید کر کھالو۔ میں سوچ میں پڑگیا، تو شیطان نے آنکھ مار کر کہا، سوچنے سے کچھ نہیں ملتا، یہ موقع پھر نہیں آئے گا، آگے بڑھو۔
میں نے ویسا ہی کیا۔ ڈیوڑھی میں سے گزر رہا تھا کہ باہر سے آئے ہوئے بڑے بھائی سے ٹکرا گیا۔ پوچھا یہ کیا ہے جولی میں؟ یاد نہیں میں نے کیا جواب دیا، مگر سیدھا بازار گیا۔ بارہ آنے میں چار سیر جوار دوکان کو دیا۔ کتابوں کا بستہ میں پہلے ہی ڈیوڑھی میں پھینک آیا تھا اور سیدوشریف سے پیدل بھاگ نکلا۔ بلا سوچے گاؤں کا رُخ کیا۔ کوئی چار گھنٹے کے مسلسل مارچ کے بعد گاؤں پہنچا، تو پاؤں سوجھ گئے تھے اور سرخ چھالے پڑ گئے تھے۔ چچی نے ابھی میرے جوتے اُتارے ہی تھے کہ باہر دروازے پر دستک ہوئی۔ چچا باہر نکلے اور جب اندر آئے، تو اُن کا رنگ اُڑا ہوا لگ رہا تھا۔ مجھ سے کہنے لگا اُٹھو اور فوراً واپس گھر جاؤ۔ باہر ’’قلعہ وال‘‘ کھڑا ہے۔ کہہ رہا ہے کہ بچے کو فوراً سیدوشریف روانہ کرو، نہیں تو مجھے کوٹہ میں واقع قلعہ میں لے جائیں گے۔
چچی نے منت سماجت کی کہ دیکھو بچے کی حالت، پاؤں میں چھالے پڑ گئے ہیں۔ آج آرام کرے گا، تو کل اس کو بھیج دیں گے۔ لیکن چچا کو ’’قلعہ وال‘‘ کی فکر تھی۔ حالاں کہ اُن کو کوئی خطرہ والی بات بھی نہیں تھی۔ اُن کے سالے کوٹہ قلعہ کے محرر تھے۔ مگر وہ تھے سادہ قسم کے آدمی، وہ نہ مانے اور میں اسی حالت میں واپس پیدل سیدو شریف کی طرف چل پڑا۔ شام کو گرتا پڑتا جب گھر پہنچا، تو میرے پاؤں زمین پر رکھنے سے معذور ہوچکے تھے اور ہر قدم پر میری چیخیں نکلتی تھیں۔ میری والدہ نے رورو کر میرے پاؤں نمک ملے گرم پانی سے دھو ڈالے جس سے مجھے کافی راحت محسوس ہوئی۔
یہ ’’قلعہ وال‘‘ کون تھے، ان کے کیا فرائض تھے، اس سسٹم کا انفراسٹرکچر کیا تھا اور ان سے معاشرے کو کیا خدمات حاصل ہوتی تھیں؟
تو دوستو! قلعہ وال وہ سپاہی تھے جو ریاست سوات کی حدود میں واقع مختلف قلعہ جات میں تعینات تھے اور قلعہ کی حدودِ کارکردگی میں امنِ عامہ بر قرار رکھنے کے ذمہ دار تھے۔ یہ ریاست کے انتظامی امور کے نفاذ میں اہم کردار ادا کرنے والی ایک فورس تھے۔ اُن کی اکثریت یا تو ریاستی فوج سے آتی تھی یا براہ راست بھرتی ہوتے تھے۔ ان کے عہدہ دار فوج ہی سے آتے تھے۔ اور ان کا تبادلہ ایک قلعہ سے دوسرے قلعہ ہوتا رہتا تھا۔ قلعہ میں سپاہیوں کی تعداد کے تناسب سے حوالدار، جمعہ دار اور سب سے اوپر صوبیدار ہوا کرتے تھے۔ تمام قلعوں کی کمان ایک کمانڈر کے ہاتھ میں ہوتی تھی۔ بعد میں جب پولیس کا باقاعدہ نظام رائج ہوا اور افسران کو ’’پولیس ٹریننگ کالج سہالہ‘‘ بھیجا جانے لگا، تو قلعہ وال پولیس سپاہی بن گیا اور قلعہ کا انچارج انسپکٹر کہلانے لگا۔ مگر بعض قلعہ جات کے نگران پھر بھی صوبیدار ہوا کرتے تھے۔ میرے ایک خالو سید اظہر صوبیدار، دیدل کماچ، چوگا اور آلوچ اور لالکو میں رہ چکے تھے۔
’’قلعہ وال‘‘ اکثر ٹیلی فون پر آئے ہوئے احکامات عوام تک پہنچانے کے لیے دور دراز علاقوں تک پیدل جاتے تھے۔ مثلاً کوٹہ قلعہ کے سپاہی یا قلعہ وال ملکی دم اور قلنگ چرخئی، سنڈوکہ تک جاتے تھے۔ ’’قلعہ وال‘‘ گاؤں میں قدم رکھتا، تو غیر مرئی طور پر پورے گاؤں میں تھرتھری چھوٹ جاتی کہ نہ جانے کیا بات ہے ’’قلعہ وال‘‘ آیا ہے۔ یہ کس کے پاس آیا ہے؟ قلعہ وال کی بہت آؤ بھگت کی جاتی تھی۔ ایک تو سرکاری حیثیت سے اور دوسرا ’’پختون ولی‘‘ کی وجہ سے۔ قلعہ وال کا ایک رُعب ہوا کرتا تھا اور ہر کوئی سے اُس سے بناکر رہتا تھا۔
بعض اڑیل ’’قلعہ وال‘‘ لوگوں کے لیے باعثِ تکلیف ہوا کرتے تھے، تو عوام کچھ وقت تک ان کو برداشت کرتے، مگر جب اُن کی خرمستیاں برداشت سے باہر ہوجاتی تھیں، تو ان کو فوری طور پر وہاں سے تبدیل کیا جاتا۔
فوجی سپاہی کو جب کسی قلعہ میں تعینات کیا جاتا، تو وہ اس کو اپنی توہین سے سمجھتا تھا اور مجبوراً ہی اس کو قلعہ میں جانا پڑتا تھا۔ حالاں کہ قلعہ میں کافی مراعات تھیں۔ قلعہ کے اندر سرکاری رہائش گاہیں بنی ہوتی تھیں۔ کوئی محنت طلب کام بھی نہیں کرنا پڑتا تھا۔ فوجیوں کی طرح سال میں تین مہینے تعمیراتی کام بھی نہیں کرتے تھے۔ ہر وقت بیوی بچوں کا ساتھ میسر تھا۔ پھر بھی ایک فوجی سپاہی خود کو ’’قلعہ وال‘‘ سے بہتر سمجھتا تھا۔ ’’قلعہ وال‘‘ ایک نہایت مفید اور مؤثر ادارہ تھے۔
کیا سادہ نظام تھا اور عوامی نقطہ نظر سے کتنا سہل اور پُرسکون امن و امان کا خود کار سسٹم تھا۔ ادغام کے بعد یہی ’’قلعہ وال‘‘ تعلیمی قابلیت اور عہدوں کے لحاظ سے صوبائی پولیس میں ضم کر دیے گئے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں