فضل رازق شہابکالم

پرے دادا

1974ء کے زلزلہئ کوہستان کے فوراً بعد جب ہم ریلیف اور نقصانات کا تخمینہ لگانے کے سلسلے میں بوٹیال میں مقیم تھے، تو ظفر علی سب انجینئر کا خیمہ ہمارے خیموں کے درمیان LOSVEGAS کا سب سے معروف “Casino” تھا، جہاں رات بھر مٹی کے تیل کا لیمپ روشن رہتا۔ ہم دن بھر مختلف علاقوں میں ٹیموں کی صورت میں بکھر جاتے اور رات کو جمع شدہ ڈیٹا کی مدد سے مختلف سڑکوں اور اسکولوں وغیرہ کا تخمینے لگایا کرتے۔ ظفر علی کو سنجیدہ ہونا آتا ہی نہ تھا۔ ایک دو صفحے کے کیلکولیشنز کے بعد کاغذوں کا پلندا پھینک دیتا اور کوئی ڈائجسٹ اٹھا کر پڑھنے لگتا۔ اس کو ڈائجسٹ پڑھنے کی لت سی لگی ہوئی تھی۔ خصوصی طور پر سب رنگ ڈائجسٹ، جاسوسی ڈائجسٹ اور ابنِ صفی کے ناول اس کی دوسری کمزوری تھے۔ پہلی کمزوری کا ذکر میں پہلے جملوں میں کرچکا ہوں۔ میرا اور اُن کا ساتھ ریاستی دور سے شروع ہوا تھا۔ سارے دفتر میں، مَیں ہی واحد شخص تھا جس کی گالیوں کا وہ جواب تک بھی نہ دیتا تھا۔ اس پر مجھے زیادہ جھنجلاہٹ ہوجاتی، تو وہ ہنسنے لگتا۔ شائد اس کو میرا غصہ بھی اچھا لگتا تھا۔ اس کے سانولے روشن چہرے پر شائد منھ صرف کھانے اور ہنسنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ ادغام ریاست کے بعد ہم سات اوورسیرز کا گروپ بکھر گیا۔
کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا
مَیں اور فضل معبود (مرحوم) بونیر کے نئے قائم شدہ سب ڈویژن کی داغ بیل ڈالنے کی خاطر رشید علی خان کی قیادت میں ڈگر چلے گئے۔ اب ظفر علی سے ملاقاتیں محدود اور مخصوص حالات ہی کے تحت ہونے لگیں،لیکن جب بھی ملا، تو ایسے جیسے کبھی ہم الگ ہی نہ ہوئے ہوں۔ اُن کی ”ڈائجسٹ بینی“ اور ”کارڈز بینی“ اُسی طرح جاری رہی۔ ظفر کی ایک عادت کا ذکر مجھے ابتدا میں کرنا چاہیے تھا، لیکن وہ مجھے اس تحریر کے دوران میں یاد آئی۔ وہ نماز کی سختی سے پابندی کرتا تھا۔ برفیلا طوفان ہو یا تپتی لو کی لہریں ہوں، نماز پڑھنا اور وقت پر، اُن سے کبھی نہ چھٹتا۔
وقت کا پہیہ چلتا رہا۔ پلوں کے نیچے بہت سا پانی گزر گیا کہ ظفر ریٹائر ہوگیا۔ غالباً وہ عبدالمنان ”گل دا“ (مرحوم) کے بعد دوسرا ریاستی سب انجینئر تھا، جو ریٹائر ہوا۔ مَیں ابھی اسی چکر میں پھنسا ہوا تھا۔ کبھی شانگلہ، کبھی بونیر اور کبھی چترال میں روزی کی تلاش میں بھٹکتا رہا۔ ظفر سے ملاقاتیں تقریباً معدوم ہوگئیں۔ ہمارے بعض ساتھی ان کو پیار سے ”پرے دادا“ کہتے تھے۔ تو اُن کے ذریعے ظفر کے شب و روز کا پتا لگتا تھا کہ خیر سے زندہ ہیں۔ گراسی گراؤنڈ کے قریب جو آفیسرز کلب تھا، وہ اس کے مستقل ممبر تھے، جہاں پر بڑے بڑے ڈاکٹرز اور ضلعی افسران آیا کرتے تھے۔ غرض یہ کہ وہ ایک بھر پور زندگی سے لطف اندوز ہورہا تھا۔
19دسمبر 2013ء کی صبح پونے آٹھ بجے مجھے منظور لالہ کی کال آئی۔ وہ کہہ رہے تھے ”فضل رازق خان! وہ میرے یار ”پرے دادا“ چل بسے۔“ مَیں ششدر رہ گیا، پوچھا: ”کب؟“ کہنے لگے: ”کل 18دسمبر کی شام ہم اُس کا جنازہ پڑھ چکے ہیں۔ تم آسکتے ہو، تو ضرور آنا۔“
یار اُس جیسا “Jolly Fellow” کیسے مرسکتا ہے؟ وہ تو موت کوبھی ہنستے ہوئے کل پر ٹالے گا، لیکن نہیں، اس میں تو ایک لمحے کی تقدیم و تاخیر نہیں ہوسکتی۔ میں باہر آگیا، تو دیکھا کہ میرا بیٹا گاڑی لے کر اسکول چلا گیا ہے۔ مَیں نے ٹیکسی منگوائی اور اُس یارِ طرح دار کے ورثا سے تعزیت کے لیے مینگورہ کی طرف روانہ ہوا۔ سارے راستے پر چلتے ہوئے، اُس کا ہر وقت ہنستا ہوا چہرہ نظر کے سامنے رہا۔ مجھے ان کے محلے کا نام تو نہیں آتا، لنڈے کس سے گزرتے ہم ایک مسجد کے قریب گاڑی سے اُترے، شاید ”مسجد الہدیٰ“ اس کا نام تھا۔ اندر بہت سے لوگ ہال میں بیٹھے تھے، تعزیت کے آنے والوں کا تانتا بندھا تھا۔ مَیں اُس کے چچا زاد بھائی اقبال کے قریب بیٹھا۔ وہ مجھے اُن کے بارے میں بتا رہا تھا۔ اُن کی بیماری، آخری ایام اور کل والی آخری سفر کے بارے میں۔ مَیں بس ”ہوں ہاں“ کرتا رہا۔ کیوں کہ میری نظروں کے آگے ہنستا مسکراتا ”پرے دادا“ بیٹھا تھا اور میں ایک ٹک اُس کی طرف دیکھتا رہا۔
مَیں نے اُس کو بتایا کہ اب ہم سات کے گروپ میں سے صرف دو باقی رہ گئے ہیں۔ ایک میں اور ایک ”عبدالرؤف فیض آباد والے۔“ باقی سب چلے گئے۔ اسماعیل، عبدالقیوم، فضل معبود، عبدالمنان گل دا اور اب ظفر علی، تعزیت کے بعد میں اُس کے بڑے بیٹے سے ملا اور واپسی کے لیے کار میں بیٹھ گیا۔
مَیں سوچ رہا تھا نہ جانے اب کس کی باری ہے، میری یا عبدالروف طوطا کی۔ پھر مجھے انڈیا کا ایک فلمی گانا یاد آیا۔
تاش کے باؤن پتے
پنجے، چھکے، ستے
ہیں سب کے سب ہرجائی
میں لُٹ گیا رام دہائی!
”پرے دادا، ہنستے مسکراتے رہو! تم ہنستے ہوئے ہی اچھے لگتے ہو!“

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں