فضل مولا زاہدکالم

خوردنی تیل کا شعبہ، تبدیلی کیسے؟

ایک سال میں کتنا گھی یا خوردنی تیل کھاتے ہیں ہم لوگ؟ دل پر ہاتھ رکھیں، بتائے دیتے ہیں۔ اوسطاً سولہ کلو گرام فی نفر۔ ویسے آپس کی بات ہے، یہ استعمال بیس کلو سے بھی زیادہ ہے، لیکن اس میں بچوں کے علاوہ وہ افراد بھی شامل ہیں جو کسی وجہ سے گھی یا تیل استعمال نہیں کرتے۔ حواس ابھی بحال ہوں اور فشارِ خون نارمل، تو ہم بولیں۔ ابھی دل دھڑکنے کے مراحل اور بھی ہیں۔ سولہ کلوگرام اور بیس کروڑ نفر۔ ضرب دیں، تو سیدھا سیدھا بتیس لاکھ ٹن بنتا ہے۔ تقریباً دس پندرہ فی صد صنعتی استعمال اس کے علاوہ ہے۔ یعنی ٹوٹل میں پانچ لاکھ ٹن مزید بڑھائیں۔ اس سینتیس لاکھ ٹن میں ملکی پیداوار کا حصہ صرف پندرہ فی صد یاساڑھے چار لاکھ ٹن ہے، جو مقامی فصلات جیسے کینولا (سرسوں) بنولہ (کپاس) اور سورج مکھی وغیرہ کے بیجوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ باقی رہا پچاسی فیصد یا ساڑھے بتیس لاکھ ٹن، تو یہ بیرونی دنیا سے درآمد کیا جاتا ہے، جس پر پچھلے سے پچھلے سال مبلغ پونے تین ارب ڈالر کا قیمتی زرِمبادلہ خرچ ہوا۔ سویا بین تیل امریکہ سے اور پام آئل ملائشیا وغیرہ سے درآمد ہوتا ہے۔ یعنی اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہم امریکی اور ملائشیا کے زمین داروں پر بڑے فیاضی کے ساتھ ڈالروں کے ڈالر نچھاور کرتے ہیں۔ ہاں، کافی مقدار میں سورج مکھی اور کینولا کے بیج بھی لوکل کرشنگ کے لیے درآمد کیے جاتے ہیں۔ زیتون کا تیل بھی درآمد کیا جاتا ہے، لیکن محدود مقدار میں۔ اِس درآمدی مافیائی عمل میں ہم نتھنوں تک ایسے دھنس چکے ہیں کہ اپنے کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک دُمڑی تک خرچ کرنے کے بھی رودار نہیں۔ یہ اعداد و شمار خیالی یا فرضی نہیں۔ یہ سال دو ہزار پندرہ سولہ کی رپورٹ کیے گئے اعداد و شمارہیں۔ یاد دہانی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ سال دو ہزار سترہ میں تیل کی درآمدات کوئی تیس لاکھ ٹن جب کہ تیل نکالنے کے لیے بیجوں کی درآمدت بھی کوئی تیس لاکھ ٹن تک رہی۔ آبادی، قیمتوں اور استعمال میں مسلسل اضافے کی وجہ سے زرِمبادلہ کے ان اخراجات میں اوسطاً کوئی دس فی صد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہوتا ہے۔ اس حساب سے آئندہ چار پانچ سالوں میںیہ درآمدات سات ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر نے کا اندازہ ہے۔ پچھلے سال ملک کے تمام خوردنی اجناس کی درآمدات کا سالانہ بِل چار ارب ڈالر رہا، جس کا ستر فی صد حصہ صرف خوردنی تیل کی مد میں خرچ ہوا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ہم ایک زرعی ملک ہیں۔ تب بھی پوری دنیا میں ہماری شہرت سب سے زیادہ خوردنی تیل درآمد کرنے والے اور سب سے زیادہ گھی استعمال کرنے والے ملک کی حیثیت سے اظہر من الشمس ہے۔ ملک میں خوردنی تیل کی فصلیں کاشت کرنے کے لیے بے پناہ وسائل موجود ہیں۔ لاکھوں ایکڑ زمین، محنت کش کسان، زرعی ماہرین، بیجوں کی مناسب اقسام، تحقیقی و توسیعی تجربات و نتائج، زرعی مشینری اور پورے ملک میں پھیلے وسیع انفراسٹرکچر کی موجودگی، کمی ہے تو صرف عزم اور خلوصِ نیت کی۔
پچھلے چالیس سال میں تیل دار فصلوں کی کاشت کے لیے وفاقی سطح پر کئی ادارے بنے اور بگڑے۔ پاکستان ایڈیبل آئل کارپوریشن (پی ای او سی، 1976 تا 1980ء)، گھی کارپوریشن آف پاکستان سیڈڈویژن (1980ء تا 1995ء) جس کے خاتمہ کے بعد سال انیس سو پچانوے میں وفاقی وزارتِ خوراک و زراعت کے زیرِ سایہ پاکستان آئل سیڈ ڈیولپمنٹ بورڈ (پی او ڈی بی )کے نام سے ایک ادارہ بنایا گیا، جو ’’امپورٹ لابیز‘ ‘کے منظم منفی پروپیگنڈا کے طوفان میں اٹھارویں ترمیم کی تلوار سے دو ہزار گیارہ میں تہ تیغ کیا گیا۔ اس ادارے کے ورکرزنے پندرہ سال کی جہدِ مسلسل کے بعد ملک میں سورج مکھی اور کینولا کی کاشت کا رقبہ دو لاکھ ایکڑ کے مقابلے میں تیئس لاکھ ایکڑ تک بڑھایا۔ ایک ایکڑ سورج مکھی (سو دن کا فصل) یا کینولا (ایک سو چالیس دن کا فصل ) کی کاشت سے اوسطاًپانچ سو ڈالر کا خوردنی تیل نکلتا ہے۔ اس حساب سے پی او ڈی بی (جس کو اب مفلوج کیا گیا ہے) نے صرف ایک ہی سال میں کوئی بارہ کروڑ روپے کے اخراجات کے بدلے میں ملک کو سوا ارب ڈالر تک زرمبادلہ کی بچت دلائی، جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ اس کے علاوہ خیبر پختونخوا، پنجاب کے پوٹھوہار اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں زیتون کی کاشت متعارف کرنے کا سہرا بھی اسی ادارے کے سر ہے۔ پی اوڈی بی کی اتنی بڑی کامیابی’’بعض لوگوں‘‘ کو پسند نہ آئی ، اسی وجہ سے اٹھارویں ترمیم کی آڑ میں اس ادارے کو سال 2011ء میں یکلخت ختم کر دیا گیا۔ اس کے زرعی سائنس دانوں و تکنیکی ملازمین کو دوسرے غیر متعلقہ اداروں میں کھپا کر فوری طور پر وہاں رپورٹ کرنے کے احکامات جاری کیے گئے اور کسی ہوم ورک کے بغیر اس کے اربوں روپے کے قیمتی اثاثوں کو ’’جیسے ہیں اور جہاں ہیں‘‘ کی بنیاد پر گلنے سڑنے کے لیے چھوڑ دیا گیا، جس میں زرعی مشینری، سیڈ سٹاکس اور سٹوریجز، آئل ایکسٹریکشن یونٹس، گاڑیاں اور دیگر اثاثوں کے علاوہ بلڈنگز اور ریکارڈ شامل ہے۔ ان فصلوں کی ترقی پر سولہ سالوں میں جو محنت کی گئی تھی، کوئی میکینزم بنائے بغیر اس کو سرِراہ چھوڑ دیا گیا۔ اس وجہ سے تیل دار فصلوں کا رقبہ جو سال 2010-11ء میں تیئس لاکھ ایکڑ تک پہنچ گیا تھا، اب کم ہوکر کوئی دو لاکھ ایکڑ تک رہ گیا ہے۔ اب امپورٹ لابی اور کمیشن مافیاز کو کھلی چھٹی مل گئی ہے کہ وہ اپنی ٹارگٹس کے مطابق سویابین اور پام آئل درآمد کریں۔ پی او ڈی بی کے خاتمہ کے بعد 2012ء میں وزیراعظم کے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن نے اس ادارے کو وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی کے ساتھ دوبارہ بحال کرنے کی سفارش کی، لیکن صرف آئی سی ٹی اور فیڈرل ایریاز کی حد تک۔ اس فیصلے کی وجہ سے وہ زرعی ماہرین جن کو دیگر محکموں میں کھپا دیا گیا تھا، واپس تو آگئے، لیکن ان کے پاس تنخواہوں کے علاوہ کوئی فنڈہے، نہ ان محدود علاقوں میں کرنے کو کوئی کام۔ سوائے اکا دکا چند نمائشی پلاٹوں اور زیتون کے پودوں کے لگانے کے۔ انتہائی حیرت کی بات یہ ہے کہ وفاقی وزارتِ نیشنل فوڈ سیکورٹی، بجائے اس کے کہ فوڈ سیکورٹی کے اس اہم جز کو ترقی دینے کے لیے اس کا دائرہ کار پورے ملک تک پھیلاتی اورصوبائی محکمہ ہائے زراعت کے ساتھ اس کا مضبوط نیٹ ورک بنانے کی کوشش کرتی، نے اس ادارے کے ملازمین سے کوئی استفادہ کرنے کے لیے کوئی میکینزم بنایا نہ اس کو توسیع دینے کا کوئی پلان ۔ اِن حقائق کی روشنی میں عوامی نمائندوں کا متعلقہ وزارت سے یہ پوچھنا فرض ہے کہ
* اس وقت ملک کے خوردنی تیل کی صورت حال کیا ہے؟ سال دوہزار آٹھ سے اب تک خوردنی تیل کی ملکی پیداوار اور درآمدات کے بارے میں تفصیلی اعدادو شمار پیش کیے جائیں؟
*وفاقی حکومت،فوڈ سیکورٹی کے اس اہم ترین جز کی درآمدات کم کرنے اور ملکی پیداوار بڑھانے کیلئے ملکی سطح پر کیا اقدامات کر رہی ہے؟
* پی او ڈی بی کے خاتمہ سے حکومتی اخراجات کی کتنی بچت ہوئی؟ اس کے خاتمہ کے فوائد کیا تھے اور جاری رہنے کے نقصانات کیا ہیں، اس کے خاتمہ کی سفارش کرنے والا افسر کون تھا؟
* اس بات پر بھی تفصیلی مباحثے کی ضرورت ہے کہ اپنے ملک میں کامیابی کے وسیع ترین امکانات کے باوجود حکمرانوں اور پالیسی سازوں کی ملکی پیداوار بڑھانے میں عدم دلچسپی کے پیچھے کیا راز ہے؟
* اس شعبہ میں مثبت تبدیلی ہو، تو یوں ہو کہ تیل دار فصلات، بشمول زیتون کی پیداوار بڑھانے کیلئے وفاقی سطح پر بڑے منصوبے بھی بنائے جائیں، تاکہ ملک میں موجود لاکھوں ایکڑ بیکار پڑی بنجر زمینوں میں اس کی کاشت شروع کی جا سکے۔ ملک میں موجود کوئی ڈیڑھ سو گھی یونٹس کو بھی تحقیق و ترویج کی سرگرمیوں میں حصہ دار بنایا جائے اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے۔ یقین کیجئے، بیس لاکھ ایکڑ کی تیل دار اجناس کی کاشت سے پانچ مہینوں میں ایک ارب ڈالر کا زرِ مبادلہ بھی بچایاجا سکتا ہے اور ملک میں کم ازکم ایک لاکھ افراد کو بلواسطہ یا بلا واسطہ روزگار بھی دیا جاسکتا ہے۔
ایک فکرمند شہری کی حیثیت سے خوردنی تیل کی ملکی صورتِ حال کے حوالے سے ضروری اعداد و شمار اور چند حقائق معزز عوامی نمائندوں کے نوٹس میں لانا ہماری ذمہ داری تھی، جو ہم نے نبھا دی، جس پر غور و خوص کرنا اور پالیسیاں بنانا ذمہ داری ہے اُن کی جن کو عوام نے مینڈیٹ دیا ہے۔ اُمید ہے اس شعبہ میں تبدیلی لانے کے لیے وہ اپنے حصے کی ذمہ داری بطریق احسن ادا کریں گے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں