تصدیق اقبال بابوکالم

کسکر اور ’’گنگوسے‘‘

آج کل سوشل میڈیا پر فرمان کسکرؔ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ سنا ہے وہ اول فول، بکتا ہے اور اوٹ پٹانگ قسم کی باتیں کیا کرتا ہے جسے لوگ اُس کی شاعری کا نام دیتے ہیں۔ میں چوں کہ بچپن ہی سے ادب کا سنجیدہ قاری رہا ہوں۔ اس لیے ایسی خرافات اور واہیات کو نہ کبھی سنا اور نہ ہی کبھی پڑھا ہے۔
یہ دنیا بھی بڑی ظالم ہے۔ انسان کو جتنا اونچا اُٹھاتی یا اُڑاتی ہے، اُتنی ہی بلندی اور تیزی سے زمین پہ بھی دے مارتی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ انشاء اللہ خان انشاؔ جسے بلبلِ ہندوستان بھی کہا گیا، آخر میں دیوانہ ہوکے مر گیا، جس کے جنازے میں چار افراد بھی نہیں تھے۔ محمد حسین آزادؔ کو چلبلے لفظوں کا جادو گر کہا گیا۔ مرنے سے پہلے وہ بھی پاگل ہوکے ننگا پھرنے لگ گیا۔ یہی حال میراجی کا بھی ہوا اور تو اور ہمارے ہاں تو سلطان راہی اور یاسمین خان جیسے لوگوں کو بھی گولیوں سے چھلنی کر دینے کی روایات موجود ہیں۔
شاعری میں آج کل بخت زادہ دانشؔ کو بھی لوگ ہاتھوں ہاتھ لے رہے ہیں، لیکن سنجیدہ حلقوں میں اس کی فنی کمزوریوں پہ انگشت نمائی بھی ہو رہی ہے۔ خدشہ ہے کہ کہیں اُن کا اُبال بھی بیٹھ ہی نہ جائے (ہم کون ہوتے ہیں اُس کے جھاگ کو بیٹھتا دیکھنے کی پیشین گوئی کرنے والے؟)
آمدم بر سرِ مطلب! بات فرمان کسکرؔ کی ہو رہی تھی۔ جس کاتوتی آج کل سوشل میڈیا پہ خوب ٹائیں ٹائیں کر رہا ہے۔ لیکن دِکھتا ہے کہ اس کی گردن تو بہت ہی جلد مروڑ دی جانے والی ہے۔ زندہ وہی رہتا ہے جس میں لمبی اُڑان بھرنے کی طاقت ہو، جو دلوں پہ راج کرتا ہو، جو انسان اور انسانیت کی بات کرتا ہو، جس کے پیغام میں آفاقیت، دوامیت اور کلاسیکیت ہو۔
ہمارے آج کے ممدوح بھی کسکرؔ ہیں، لیکن یہ فرمان کسکرؔ نہیں بلکہ سکندر حیات کسکرؔ ہیں۔ یہ فرمان کسکرؔ کی طرح اوٹ پٹانگ، اول فول اور واہیات بکنے والا شاعر نہیں۔ یہ سراسر محبتوں، اُلفتوں اور فریفتگیوں کا شاعر ہے۔ خود بھی الفت، محبت اور شیفتگی کا لبالب پیمانہ ہے۔ ہنس مکھ، خوش مزاج اور بااخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ درویشانہ، عاجزانہ اور خاکسارانہ طبیعت کا مالک ہے، لیکن مزاج سے ہٹ کر بات یا نا انصافی کو برداشت نہیں کرسکتا، جس کے لیے سینہ سپر ہوجاتا ہے۔ حق بات ڈنکے کی چوٹ پہ کہتا ہے، جس کے لیے آخر دم تک لڑتا بھی رہتا ہے۔ حال ہی میں اُس کا ’’گنگوسے‘‘ نامی شعری مجموعہ چھپ کر منظر عام پہ آیا ہے۔ خوبصورت ٹائٹل اور خوبصورت گیٹ اَپ والا یہ شعری مجموعہ 208 صفحات پر مشتمل ہے، جسے نور پبلی کیشنز کے محمد علی تنہاؔ نے خوبصورت کاغذ کے ساتھ زیورِ طبع سے آراستہ کیا ہے۔ حنیف قیسؔ نے اُس کی پروف ریڈنگ کی ہے۔ اس سے پہلے بھی کسکرؔ کی 5 عدد کتابیں مارکیٹ میں آچکی ہیں، جنہیں عوامی حلقوں میں خوب پذیرائی مل چکی ہے۔ خوش قسمت ہے کسکرؔ کہ اُس کی کتابیں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں۔ اب یہ معلوم نہیں اُس کی کتابیں ارزاں ہونے کی وجہ سے بکتی ہیں، یا شاعری میں کوئی دَم خم ہے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ نوجوانوں، خصوصاً خواتین کے تو آپ ہر دلعزیز شاعر ہیں۔ اُنہیں بھی اس بات کا احساس ہے۔ اس لیے بہ بانگ دُہل کہتے ہیں کہ:
گنگوسے شو، گنگوسے شو، گنگوسے
خلق وائی چی کسکر خو لیونے شو
کسکرؔ کی ساری شاعری الفت اور محبت ہی کے مدار میں گھومتی نظر آتی ہے۔ وہ محبتیں بانٹنا اور محبتیں ہی سمیٹنا چاہتا ہے۔ اسی لیے تو کھل کر کہتا ہے کہ:
د زلفو ٹال، جوٹے د مینے غواڑم
لمحے د ژوند خپلے رنگینے غواڑم
زان چی پرے اوخایم ہمزولو تہ خپل
د لاس نکریزو لہ دے وینے غواڑم
ما خو دکان ورتہ رنگین جوڑ کڑے
بنگڑو لہ لیچے مرمرینے غواڑم
آپ نرالی دھج کے مالک ہیں۔ شاعری کا بیانیہ بھی نرالا، اسلوب بھی منفرد اور بیان بھی مختلف انداز ہی کا ہے۔ ذرا دیکھئے ان اشعار میں کیسی نرالی ترکیبات اور تشبیہات باندھتے ہیں۔
زہ دولت ڈیران گنڑم
غورہ ترے انسان گنڑم
پرتے دی پہ کشمیر د مخ
ستا زلفے ہندوان گنڑم
ذرا رعایتِ لفظی اور تجنیسِ حرفی بھی ملاحظہ ہو:
خکلیہ راتہ اوگورہ چی خکلے شم
ستا چی پہ مئینو کے خاغلے شم
زڑہ دے، کہ قرار دے، کہ سکون زما
د عشق پہ جوارئی کے اے بیللے شم
کسکرؔ کی رومان بھری شاعری میں کہیں کہیں عجیب و غریب الفاظ کے ساتھ ساتھ مزاح کی پھلجھڑیاں بھی دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔
ملاحظہ ہو:
ڈنڈتہ د خکلا ناست یم
نشتہ پکے کب زما
لگ صبر رقیبہ کڑہ
اوبہ خورے تہ ڈب زما
فنی، عروضی اور بیان و بدیعی غلطیوں کو بالائے طاق رکھ کر دیکھا جائے، تو کسکرؔ کی شاعری بوجھل لمحوں میں ہلکی پھلکی تسکین اور تفننِ طبع کا اِک بہترین تحفہ ہے۔ جس کے پاس نہیں، وہ کسکرؔ سے 0333-9481935 پر رابطہ کرے۔ وہ 120روپے کی یہ کتاب مفت میں بھی دے دیتے ہیں۔
ورتہ کسکرؔ بہ ہر کلے وایمہ
سوک چی زما د زڑگی ور لہ رازی

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں